خلاصہ تفسیر
سواے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے (یعنی منکر ہونا بڑی ہٹ دھرمی اور بدیہیات بلکہ محسوسات کا انکار ہے اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے انسان (کی اصل اول یعنی آدم علیہ السلام) کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح (کھن کھن) بجتی تھی پیدا کیا (جس کا اجمالاً چند آیت میں اوپر ذکر کر آیا ہے) اور جناب (کی اصل اول) کو خالص آگ سے (جس میں دھواں نہ تھا) پیدا کیا (اور پھر دونوں نوع میں توالد و تناسل کے ذریعے سے نسل چلی، شرح اس کو سورئہ حجر کے رکوع دوم میں آ چکی ہے) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے (مراد اس کی اوپر گزری ہے اور) وہ دونوں مشرق اور دونوں مغرب کا مالک (حقیقی) ہے (مراد اس سے سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا افق ہے اس میں بھی وجہ نعمت ظاہر ہے کہ لیل و نہار کے افتتاح و اختتام کے ساتھ بہت سے اغراض متعلق ہیں) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے (اور ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی نے دو دریاؤں کو (صورۃً) ملایا کہ (ظاہر میں) باہم ملے ہوئے ہیں (اور حقیقتاً) ان دونوں کے درمیان میں ایک حجاب (قدرتی) ہے کہ (اس کی وجہ سے) دونوں (اپنے اپنے موقع سے) بڑھ نہیں سکتے (جس کی شرح سورئہ فرقان کے ختم سے ڈیڑھ رکوع قبل گزری ہے اور آب شور و آب شیریں کے منافع بھی ظاہر ہیں اور دونوں کے ملنے میں نعمت استدلال بھی ہے) سو اے جن وانس (باوجود اس کثرت و عظمت نعم کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے (اور بحرین کے متعلق ایک یہ نعمت ہے کہ) ان دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتا ہے (موتی مونگے کے منافع اور وجوہ نعمت ہونا ظاہر ہے) سو اے جن وانس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے اور (ایک نعمت یہ ہے کہ) اسی کے (اختیار اور ملک میں) ہیں جہاز جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے کھڑے (نظر آتے) ہیں (ان کی منفعت بھی ظاہر بلکہ اظہر ہے) سو اے جن و انس (باوجود نعمتوں کی اس کثرت و عظمت کے) تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہو جاؤ گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭