ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
سیرت ابن ہشام کی جلد دوم میں ابن اسحاق حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کا گزر ایک عورت کے پاس سے ہوا، جس کے شوہر بھائی اور والد نے رسول اکرمؐ کے ہمراہ جہاد کرتے ہوئے غزوئہ احد میں جام شہادت نوش کیا، جب اس خاتون کی ان سب کی شہادت کی اطلاع دی گئی تو اس نے اس خبر کو اہمیت نہیں دی اور بڑی بے تابی سے پوچھا ’’رسول اکرمؐ کی خیریت بتائو، میرے آقا کا کیا حال ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا کہ الحمد للہ آپؐ خیریت سے ہیں۔ اس عورت کو اس جواب پر صبر نہ آیا، بلکہ بڑی بے تابی سے اس نے کہا ’’مجھے میرے آقا کو دکھائو، تاکہ میں ان کی دید سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرلوں۔‘‘ لوگوں نے اس خاتون کو اشارے سے بتایا کہ وہ دیکھو، رسول اکرمؐ وہاں ہیں۔ جیسے ہی اس خاتون نے رسول اکرمؐ کو دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھی: ’’ہر مصیبت آپؐ کی ذات بابرکت کے سامنے ہیچ اور بے حقیقت ہے۔‘‘ (سیرت ابن ہشام۔ جلد دوم۔ ص 99)
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے بعد یہ تمنا کریں گے کہ کاش ہم رسول اکرمؐ کی زیارت کرلیں، خواہ اس راہ میں ہمیں اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑی۔‘‘ (صحیح مسلم)
حضرت طلحہ بن برائؓ حضور اکرمؐ سے ملاقات کیلئے آئے تو آپؐ کے قدمین شریفین چومے اور عرض کیا: حضور! آپ جو حکم دیں گے، میں بجا لائوں گا اور آپؐ کی نافرمانی نہ کرنے کا عہد کرتا ہوں۔ حضرت طلحہ بن برائؓ اس وقت بہت کم عمر تھے۔ آپؐ یہ جذبہ ایک کم عمر کی زبان سے سن کر متعجب ہوگئے اور آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’جائو اپنے باپ کو قتل کرکے آئو۔‘‘ یہ سننا تھا کہ فوراً ہی چل دیئے تاکہ اپنے والد کا سر قلم کردیں۔ یہ دیکھ کر رسول اکرمؐ نے ان کو واپس بلالیا اور فرمایا: ’’مجھے رشتے ناتے توڑنے کیلئے نہیں بھیجا گیا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد طلحہ بن برائؓ بیمار پڑ گئے تو آپؐ سخت سردی اور موسم کی خرابی کے باوجود ان کی عیادت کو تشریف لائے اور واپسی میں ان کے اہل خانہ سے فرمایا کہ طلحہ کا آخری وقت ہے۔ پس جب ان کا انتقال ہو جائے، تو مجھے اطلاع کرنا، تاکہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھا سکوں اور جلدی کرنا۔ آپؐ یہاں سے رخصت ہو کر ابھی بنی سالم بن عوف کے محلے تک ہی تشریف لے گئے تھے کہ طلحہ بن برائؓ کی وفات ہوگئی، رات کی تاریکی تھی اور انتقال کے وقت حضرت طلحہؓ نے یہ وصیت کی تھی کہ مجھے دفنا دینا اور رسول اکرمؐ کو اطلاع نہ دینا، مجھے ڈر ہے کہ یہودی آپؐ پر کوئی حملہ نہ کردیں اور میرے جنازے میں آپ کی تشریف آوری آپؐ کے کسی نقصان کا سبب نہ بن جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت طلحہ بن برائؓ کو رات ہی کو دفنا دیا گیا اور آپؐ کو وفات کی اطلاع نہیں دی گئی۔ صبح سویرے جب آپؐ کو طلحہ بن برائؓ کی وفات کی اطلاع ملی تو آپؐ قبر پر تشریف لائے۔ صحابہؓ نے آپؐ کے پیچھے صف بنائی اور آپؐ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ’’خدایا! آپ طلحہؓ سے اس حال میں ملاقات فرمائیں کہ آپ ان کی طرف مسکرا رہے ہوں اور وہ آپ کو دیکھ کر مسکرا رہے ہوں۔‘‘ (طبرانی)
حضرت زید بن دثنہؓ غلام تھے، ان کو صفوان بن امیہ نے خرید لیا تھا، تاکہ ان کو اپنے باپ کے قتل کے بدلے میں قتل کرے۔ اس نے اپنے ایک غلام نسطاس کے ساتھ ان کو تنعیم بھیجا، تاکہ حرم سے باہر ان کو قتل کیا جائے۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی ان کے قتل کا تماشہ دیکھنے کیلئے جمع ہوگئے، جن میں ابو سفیان بن حرب بھی تھا۔ جب ان کو قتل کیلئے سامنے لایا گیا تو ابوسفیان نے ان سے کہا ’’زید میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اس وقت تمہاری جگہ (محمدؐ) ہوں اور تم اپنے گھر میں آرام سے رہو؟‘‘ حضرت زید بن دثنہؓ نے جواب دیا: ’’خدا کی قسم مجھے یہ
بھی گوارا نہیں کہ حضور پاکؐ جہاں کہیں بھی ہوں، وہاں ان کو کوئی کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے گھر میں آرام سے رہوں۔‘‘ یہ سن کر ابو سفیان نے کہا میں کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جیسی محمدؐ کے ساتھی محمدؐ سے کرتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت زید بن دثنہؓ کو سفیان بن امیہ کے غلام نسطاس نے شہید کردیا۔ (حیاۃ الصحابہ۔ جلد اول۔ ص 783)
صحیح بخاری میں حصرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شخص نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’حضور! قیامت کب آئے گی؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو، تم نے اس کی کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا: ’’اس کیلئے تیاری تو کچھ نہیں کی، البتہ خدا اور اس کے رسولؐ سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا بس تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ دیگر صحابہ نے عرض کیا: اور ہم بھی اسی کے ساتھ ہوں گے، جس سے ہم محبت کرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ صحابہؓ کو اس جواب سے بے حد خوشی ہوئی۔
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرامؓ کو کسی چیز سے اتنا خوش ہوتے نہیں دیکھا جتنا وہ اس سے خوش ہوئے کہ ایک شخص نے کہا: ’’حضور! ایک شخص کسی کے نیک عمل کی وجہ سے اس سے محبت کرتا ہے، مگر اس جیسا عمل نہیں کر سکتا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں غزوئہ احد میں رسول اکرمؐ کے سامنے دشمنوں پر تیر برسا رہا تھا۔ آپؐ (اوپر اٹھ کر) دیکھنے لگے۔ (سامنے سے دشمن بھی تیر اندازی کر رہے تھے) ابو طلحہؓ نے اپنا سینہ رسول اکرمؐ کے سامنے کردیا اور فرمانے لگے اب آپ کو ان دشمنوں کا تیر نہیں لگ سکے گا، میرا سینہ آپؐ کے سامنے (گویا حفاظتی ڈھال) ہے۔
حضرت اسید بن حضیرؓ ایک نیک طبیعت خوش رو شخص تھے، ہمیشہ مسکراتے رہتے، ایک دن رسول اقدسؐ کی مجلس میں بیٹھے لوگوں سے باتیں کرکے ان کو ہنسا رہے تھے کہ اچانک آپؐ کا نیزہ ان کے پہلو میں لگ گیا۔ کہنے لگے مجھے تکلیف پہنچی۔ آپؐ نے فرمایا: مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو۔ کہنے لگے: آپ تو قمیض پہنے ہوئے ہیں، جبکہ میرا جسم چوٹ لگنے کے وقت برہنہ تھا۔ آپؐ اپنی قمیض اٹھانے لگے تو حضرت اسید بن حضیر آپؐ سے چمٹ گئے اور آپؐ کی ختم نبوت کی جگہ کا بوسہ لیا اور عرض کیا: حضور میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔ میرا تو یہی مقصد (بوسہ لینا) تھا۔
جامع ترمذی میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’کسی شخص نے ہمیں مال و صحبت سے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا جتنا ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکرؓ) نے پہنچایا اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو قحافہؓ کے بیٹے کو بناتا، لیکن محبت اور بھائی چارگی اور ایمانی اخوت ہے۔ یہ جملہ دو تین بار فرمایا اور تمہارے ساتھی (آپؐ) تو بس خدا کے خلیل ہیں۔ (جامع ترمذی)
ایک دن رسول اکرمؐ نے خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: ’’ایک بندے کو اس کے رب نے اس کا اختیار دیا کہ وہ جب تک چاہے تو دنیا ہی میں زندہ رہے اور جو چاہے کھائے پیئے اور چاہے تو اپنے رب سے ملاقات کرلے۔ تو اس بندہ نے اپنے رب سے ملاقات کو اختیار کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ بعض صحابہ کرامؓ کو ان کے رویے پر تعجب ہوا، ان کو دیکھو کہ وہ اس بات
پر رو رہے ہیں کہ ایک بندے کو حق تعالیٰ نے اس کا اختیار دیا کہ وہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو اپنے رب کے حضور حاضر ہو جائے تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو اختیار کرلیا۔ کسی نے کہا کہ ابوبکر اس چیز کو زیادہ سمجھتے ہیں، جو رسول اکرمؐ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’حضور، آپؐ پر ہم اپنے ماں باپ قربان کرتے ہیں۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ جس وقت حضور اکرمؐ نے ان کو یمن کیلئے بھیجا تو رخصت کے وقت رسول اکرمؐ بھی ان کے ساتھ باہر تشریف لائے اور وصیت فرماتے رہے۔ حضرت معاذؓ سوار تھے، جبکہ آپؐ ان کی سواری کے ساتھ پیادہ پا چل رہے تھے۔ جب وصیت کر چکے تو فرمایا: معاذ! شاید اس سال کے بعد تم مجھ سے ملاقات نہ کر سکو اور شاید پھر میری اس مسجد یا میری قبر پر سے ہی گزرو۔ یہ سن کر حضرت معاذؓ رسول اکرمؐ کی فرقت کے خیال سے نہایت زار و قطار رونے لگے۔ تو آپؐ نے مدینہ کی جانب رخ کرکے فرمایا: ’’لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہوں گے، جو تقویٰ شعار ہوں گے، چاہے وہ کسی بھی قوم کے ہوں کہیں بھی رہتے ہوں۔‘‘ (مسند احمد۔جلد ۵)
صحیح بخاری میں حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اکرمؐ سخت بیماری کی حالت میں تھے اور آپؐ پر غشی طاری ہو جاتی تو حضرت فاطمہؓ کہنے لگیں: ’’ہائے میرے ابا جان۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: آج کے بعد تمہارے ابا پر کوئی کرب و بے چینی نہ ہوگی۔ پس جب رسول اکرمؐ کا وصال ہوگیا تو حضرت فاطمہؓ نے فرمایا ہائے ابا جان آپؐ نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہا۔ جنت الفردوس آپؐ کا ٹھکانہ ہوگا۔ جبرئیل کی بھی آج تعزیت کی جائے گی۔ پھر جب رسول اکرمؐ کی تدفین کردی گئی تو حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: ’’اے انس! کس طرح آپ لوگوں کے دلوں نے رسول اکرمؐ پر مٹی ڈالنا گوارا کیا؟‘‘
مومن بندے کا رسول اکرمؐ پر درود و سلام بھیجنا، آپؐ سے محبت اور عقیدت کی دلیل ہے۔ نبی اکرمؐ سے محبت مسلمان کے ایمان کا جزو لاینفک ہے۔ جس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ مندرجہ بالا واقعات صحابہ کرامؓ کی محبت اور عشق رسولؐ کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں، مگر درود و سلام بھی ایک فضیلت والا عمل اور ایمان کی تکمیل کا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے بندہ مومن بے شمار سعادتوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ یہ گناہوں کا کفارہ، رفع درجات کا سبب ہے۔ ہم نبی اکرمؐ سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ ان کے ذریعے دین حنیف ہم تک پہنچا اور اسی دین کو خدا نے ہمارے لئے پسند فرمایا اور اسی کی تبلیغ میں جدوجہد اور کوشش پر اجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔
حق تعالیٰ تمام مسلمان امت کو جب رسولؐ اور عشق رسولؐ سے آشنا کردے اور گستاخان رسولؐ کے مذموم عزائم کو ملیامیٹ کردے، جس نے امت مسلمہ کو ذہنی انتشار میں مبتلا کر دیا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post