سامنے لگے ہوئے گھڑیال میں ایک بج رہا تھا اور قریبی ٹی وی اسکرین پر ملائیشیا کی فضائی کمپنی، ایم اے ایس کے جہاز کی پرواز کا وقت صبح کے چار بجے ظاہر ہو رہا تھا، یہ وقت بھی کنفرم نہیں تھا۔ کیونکہ وہ ہوائی جہاز اب تک ابو ظہبی سے کراچی پہنچا ہی نہیں تھا، ظاہر ہے اس کے بعد ہی اسے کوالالمپور کے لیے روانہ ہونا تھا۔
مجھے کوالالمپور جانے والے جہاز کا انتظار کرتے ہوئے تین چار گھنٹے ہو چکے تھے۔ اب میں ذرا کمر سیدھی کرنے کے لیے تین چار خالی سیٹوں کی تلاش میں تھا۔ اس دوران میں مسقط جانے والی پرواز کے مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے کی ہدایات گونجنے لگیں۔ مجھے امید ہو چلی کہ اب ضرور کچھ کرسیاں خالی ہوں گی، میں نے بیٹھے بیٹھے نظروں ہی سے چاروں طرف Scanning کی۔ فلائٹ کا سن کر بھی سوئے ہوئے افراد میں سے کسی میں جنبش نہ ہوئی۔ ادھر ادھر، چائے کے اسٹال پر موجود اور ٹوائلٹس کے قریب کھڑے ہوئے مسافروں میں سے کچھ لوگ جہاز میں سوار ہونے کے لیے مخصوص گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔ ان میں تین چار افراد شکل ہی سے خوشحال نظر آئے۔ وہ لباس اور بھرے بھرے صحت مند جسموں والے، عمان کے باشندے معلوم ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ باقی مسافر ہمارے غریب سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکی اور پٹھان بھائی تھے۔ وہ بے چارے اپنے حلیے، لباس اور گری ہوئی صحت ہی سے پہچانے جاتے تھے، وہ یقیناً روزگار کی خاطر پردیس جارہے تھے۔ اپنا گھر، والدین اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر عرب ملکوں کے سخت موسم میں محنت و مشقت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر ان کے اپنے شہروں، قصبوں اور گوٹھوں میں کارخانے، فیکٹریاں یا کوئی دوسرا ذریعہ روزگار ہوتا تو وہ کیوں اپنا گھر چھوڑ کر دربدر ہوتے۔
ایک مرتبہ کوالالمپور سے ابو ظہبی کی پرواز میں میرے ساتھ سفر کرنے والی ایک انڈونیشی نوجوان عورت یاد آگئی۔ اس کا شوہر معذور ہو چکا تھا اور وہ بے چاری اپنے تین سالہ بچے کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر خاندان کے گزر بسر کی خاطر کسی عرب کے گھر میں جھاڑو پونچھا کرنے کے لیے جا رہی تھی، میرے پوچھنے پر اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں، وہ بڑے دکھ سے بولی۔
’’ اگر ہمارے سیاستدان بھی دریا کے اس پار ملک کے سیاستدانوں جیسے ہو جائیں تو ہم پردیس کے دھکے کیوں کھائیں۔‘‘
اس کا اشارہ ملائیشیا کی طرف تھا۔ اس ملک اور ان کے انڈونیشی جزیرے سماترا کے درمیان صرف دریا جیسا ایک تنگ سمندری حصہ حائل ہے۔
میں انتظار گاہ کے ایک حصے سے اٹھ کر دوسرے میں پہنچا تو وہاں بھی تمام مسافر سیٹوں پر قبضہ کرکے سوئے ہوئے تھے، ایک جگہ سوئے ہوئے تمام افراد شکل صورت سے ملئی معلوم ہوئے۔ وہاں سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے حرکت کی۔ ایسا معلوم ہوا جیسے وہ اٹھنا چاہتا ہے، میں ایک دم ہوشیار ہوگیا اور دو قدم پیچھے آکر بالکل اس کے قریب کھڑا ہوگیا۔ تاکہ اگر وہ اٹھے تو میں فوراً ان سیٹوں پر قبضہ کر لوں۔ اس نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔
’’سوڈا تیدور؟‘‘ میں نے ملئی زبان میں اس سے پوچھا۔ ’’نیند کر لی؟‘‘
’’سوڈا۔‘‘ اس نے جواب دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ پر گی مانا؟‘‘ ( کہاں جا رہے ہو؟) میں نے پوچھا۔
’’ کوالالمپور‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’ وہ تو بعد کی بات ہے۔‘‘ میں نے ملئی زبان میں کہا۔ ’’میں اس وقت کا پوچھ رہا ہوں۔‘‘
مجھے فوراً یہ خیال آیا کہ میری مداخلت پر وہ کہیں ناراض ہو کر تو نہیں جا رہا، یہ ہمارے ملک کا ایئرپورٹ ہے۔ مجھے اپنے سے زیادہ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس خیال کے تحت میں نے اپنی بات دہرائی۔ ’’ابھی تک جہاز کراچی بھی نہیں پہنچا، وہ جب آئے گا تو تب ہی ہمیں کوالالمپور لے چلے گا۔‘‘
’’میں دو گھنٹے تک سوتا رہا ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’اب میں کچھ وقت ٹہل کر گزاروں گا۔‘‘
میں نے دل میں کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے، اب میں بھی کمر سیدھی کر لوں گا۔ اس کے اٹھتے ہی میں اپنے شولڈر بیگ کو تکیے کے طور پر رکھ کر سیٹوں پر لیٹ گیا۔ میرے قریب لیٹتے ہوئے شخص کا سر میرے سر کے قریب تھا اور وہ گہری نیند سورہا تھا، میں بھی یہی چاہتا تھا تاکہ اگر جہاز میں نیند نہ آئے تو اگلے دن کوالالمپور میں پہنچ کر کچھ تھکاوٹ محسوس نہ ہو۔ مجھے بھی تھوڑی دیر میں نیند آگئی۔
میں بمشکل بیس منٹ سویا ہوں گا کہ ایئرپورٹ کے ایک اہلکار نے مجھے اٹھا دیا، جہاں نیند خراب ہونے کا افسوس ہوا وہیں اس بات کی خوشی بھی ہوئی کہ شاید ہمارا جہاز آگیا ہے اور روانگی کے لیے تیار ہے۔
’’ کیا ہوا؟‘‘ میں چونک کر اٹھ بیٹھا۔ کچی نیند سے اٹھائے جانے پر اب تک میرے حواسوں نے ٹھیک سے کام کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ ’’کیا جہاز روانہ ہونے والا ہے؟‘‘
’’ جی ہاں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’سب لوگ جا چکے ہیں، آپ سو رہے ہیں۔‘‘
’’ سب لوگ جہاز پر جا چکے…؟‘‘ میں نے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ تمام ملئی مسافر لمبی تانے سو رہے تھے، میں نے دوبارہ یونیفارم میں ملبوس اس شخص کو گھورا۔ وہ ایئرپورٹ اتھارٹی کے کسی ماتحت اسٹاف کا اہلکار تھا۔
’’ آپ مسقط جانے والے جہاز کے مسافر ہیں نا؟‘‘ اس نے پوچھا۔ اسی وقت لاؤڈ اسپیکر سے بھی اعلان نشر ہونے لگا کہ مسقط جانے والا جہاز پرواز کے لیے تیار ہے۔ اس جہاز سے جانے والے مسافروں کو آخری بار مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ گیٹ نمبر 23 پر پہنچ جائیں۔
’’ذرا ادھر آؤ، بات سنو۔‘‘ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے قریب بلاتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ ’’میں ملائیشیا جا رہا ہوں، لیکن تمہیں یہ خیال کیسے آیا کہ میں مسقط جانے والا مسافر ہوں۔ تم نے میری نیند خراب کر دی۔‘‘
وہ بے چارہ گھبرا گیا۔ ’’سر، آپ کی داڑھی دیکھ کر میں سمجھا کہ آپ مسقط جا رہے ہیں …‘‘ پھر وہ میرے اردگرد ملئی مسافروں پر نظر ڈال کر بولا۔ ’’اور آپ دوسروں سے مختلف بھی نظر آرہے تھے۔‘‘
بہرحال وہ معذرت کرکے آگے روانہ ہوگیا۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ دوبارہ سوجاؤں یا باقی وقت بیٹھ کر گزارا جائے۔ اس دوران میں ایک نوجوان چائے کا کپ اٹھائے میرے قریب آیا اور پنجابی لہجے میں بیٹھنے کی اجازت طلب کی۔ اس کے شانے پر مختصر سا بیگ لٹک رہا تھا، اس کے ہاتھ میں موجود چائے کے کپ سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔
’’ سر آپ چائے پئیں گے؟‘‘ اس نے بیگ میرے قریب رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ شکریہ، میں تھوڑی دیر پہلے چائے پی چکا ہوں۔‘‘ میں نے ایک طرف کھسکتے ہوئے اس کے بیٹھنے کے لیے کشادہ جگہ بنائی، پھر میں اپنا شولڈر بیگ شانے پر رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس سے کہا ’’میرے لیے سیٹ رکھیے گا، میں منہ ہاتھ دھو کر ابھی واپس آتا ہوں۔‘‘
سامنے ہی واش روم تھا۔ میں وہاں سے منہ پر پانی کے چند چھپا کے مار کر لوٹ آیا۔ اس شخص کی عمر تیس، بتیس سال معلوم ہوتی تھی۔ وہ مزے سے بیٹھا چائے کی چسکیاں لے رہا تھا، لیکن وہ یک ٹک سامنے ایک جگہ نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ سخت پریشان ہے اور کچھ سوچ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں میرے جیسا ہی بورڈنگ کارڈ تھا، یعنی وہ میرا ہمسفر تھا اور ہمارے ساتھ کوالالمپور جا رہا تھا۔ اس کے بعد کی خبر نہیں تھی کہ وہ کوالالمپور سے آگے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جائے گا یا ملائیشیا ہی اس کی منزل تھی۔ ملائیشیا میں پنجاب اور سرحد (خیبر پختون خواہ) کے کئی پاکستانی رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے بزرگ انگریز راج میں انگریزوں کی فوج میں سپاہی تھے۔ ان لوگوں کو انگریز سرکار دوسری عالمی جنگ میں جاپانی فوجوں سے لڑنے کے لیے ہانک کانگ، سنگاپور اور ملایا (موجودہ مغربی ملائیشیا) لائی تھی۔ جنگ ختم ہونے اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ اسی ملک میں ٹھہر گئے۔ آج ان کی اولاد وہاں کا پاسپورٹ رکھتی ہے، سو ممکن ہے وہ نوجوان بھی ملائیشیا کا سٹیزن ہو یا وہاں آباد اپنے کسی عزیز کے ہاں ملازمت کرتا ہو۔
’’ آپ ملائیشیا میں رہتے ہیں؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ پہلے رہتا تھا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’اب کچھ دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں۔‘‘
’’ وہاں آپ کا بزنس تھا؟‘‘
’’ نہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ وہاں میں ’’چگو‘‘ تھا… چگو سمجھتے ہیں نا؟‘‘
’’میں تھوڑی تھوڑی ملئی، چینی اور تامل زبانیں سمجھتا ہوں۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’چگو کا مطلب ہے۔ ماسٹر صاحب! میں نے ابتدائی دس برس ملائیشیا اور اس کے اردگرد جہاز چلایا ہے، پھر دس سال ملاکا کی نیول اکیڈمی میں تعلیم دی ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا اور اس سے پوچھا ’’آپ ملائیشیا میں کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’ وہاں میرے بھائی کی پرچون کی دکان ہے، میں نے وہاں دو سال کام کیا ہے۔‘‘
’’ کونسے شہر میں؟‘‘
’’ سریمبان میں۔‘‘
’’میں جس شہر میں تھا، سریمبان اس سے بہت قریب ہے۔‘‘ میں نے کہا اور اس سے پوچھا۔ ’’آپ کس ویزا پر وہاں رہے؟‘‘
’’ بس جناب! ایسے ہی کام چل رہا تھا، میں سارا وقت دکان ہی پر گزارتا تھا، کہیں جانے سے گریز کرتا تھا۔‘‘
’’ اور آپ کے بھائی؟‘‘
’’انہوں نے ملائیشیا کی ایک انڈین تامل لڑکی سے شادی کر لی، اس لیے انہیں ملائیشیا میں رہنے کا Status ہے۔‘‘
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post