جمعہ کے روز قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ کے صدر میاں شہباز شریف کی گرفتاری نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی۔ لیگی صدر کو صاف پانی کیس کی تحقیقات کیلئے لاہور دفتر بلایا گیا تھا، لیکن آشیانہ ہائوسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا۔ نیب نے ہفتہ کے روز انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا۔ عدالت کے جج نجم الحسن نے مقدمے کی سماعت کی اور شہباز شریف کی طرف سے امجد پرویز بطور وکیل پیش ہوئے۔ اس موقع پر لیگی رہنما اور کارکن بھی بڑی تعداد میں جوڈیشل کمپلیکس کے باہر موجود تھے اور اپنے قائد کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اختیارات سے تجاوزکیا۔ ان کے اقدام سے قومی خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف نے ٹھیکہ لطیف اینڈ سنز سے منسوخ کرکے کاسا ڈیویلپرز کو دیا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سے مزید تفتیش درکار ہے، اس لئے انہیں جسمانی ریمانڈ کیلئے نیب کی تحویل میں دیا جائے۔ شہباز شریف نے تمام الزامات کو بے بنیاد اور سیاسی انتقام قرار دے کر کہا کہ انہوں نے قومی خزانے کو ایک پائی کا نقصان نہیں پہنچایا۔ شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ چودھری لطیف اینٹی کرپشن کے ایک کیس میں مفرور ہیں۔ ایک کیس میں نوے کروڑ روپے وصول کئے۔ ایک کیس میں چودھری لطیف کی کمپنی بلیک لسٹ ہے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر اور شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو دس روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔ لیگی صدر کی گرفتاری پر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے اور بعض نے اسے جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔ جبکہ مسلم لیگ کی جانب سے اس گرفتاری کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور ضمنی الیکشن سے قبل انہیں رہا نہ کرنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر احتجاج کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ شہباز شریف نے مارچ 2013ء میں کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کو گھر فراہم کرنے کیلئے پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا منصوبہ بنایا تھا، جس کے تحت چھ ہزار چار سو گھر تعمیر کیے جانے تھے۔ اس وقت شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ پنجاب حکومت نے اس سلسلے میں تین ہزار کنال اراضی مختص کی تھی، جس میں سے ایک ہزار کنال ڈیویلپرز کو دی گئی تھی۔ نیب نے گزشتہ سال نومبر میں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے حوالے سے تحقیقات شروع کی تھیں، جب ان کے پاس متاثرین کی جانب سے متعدد شکایت آئی تھیں کہ تین ہزار کنال کی سرکاری اراضی پر غیر قانونی معاہدہ ہوا ہے۔ شہباز شریف پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے کامیاب بولی لگانے والی کمپنی سے معاہدہ ختم کرکے ٹھیکہ ایک دوسری کمپنی کو دیا تھا۔ اسی مقدمے میں نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد اور لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ احد چیمہ بھی گرفتار ہیں۔ شہباز شریف کے قریبی افسر سمجھے جانے والے احد چیمہ مبینہ طور پر وعدہ معاف گواہ بن چکے ہیں۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر شریف خاندان کے قریبی بیورو کریٹس میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے اور انہیں اپنے سروں پر تلوار لٹکتی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔ اس لئے مزید کئی افراد کے گرفتار ہونے کا امکان ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق آشیانہ اسکینڈل کے مقدمے میں شہباز شریف کو چودہ برس قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیگی صدر کی گرفتاری ضابطے کی کارروائی کا حصہ ہے۔ اس اسکینڈل کی تحقیقات کا سلسلہ تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے قبل ہی شروع ہوگیا تھا۔ احد چیمہ اور فواد حسن فواد بھی پہلے سے گرفتار ہیں۔ نیب ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس لئے اس معاملے کو سیاسی بنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ مگر وفاقی وزیر اطلاعات نے عدالت کو بھی سیاست میں گھسیٹنے کی شاید قسم کھا رکھی ہے۔ فواد چودھری کو میڈیا میں اِن رہنے کا بہت شوق ہے۔ موصوف نے کچھ روز پہلے بیان داغا تھا کہ فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر ہیں۔ اب انہوں نے قوم کو نوید سنائی کہ یہ پہلی گرفتاری ہے، ابھی تو مزید بڑی گرفتاریاں ہونے والی ہیں۔ یہ بیان نیب اور عدالت کے کام میں مداخلت کے مترادف ہے کہ شہباز شریف کو نیب نے گرفتار کیا ہے اور فواد چودھری کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اور کتنوں کا پروانہ گرفتاری جاری ہونے والا ہے؟ جمہوری حکومتیں اختلاف و تنقید کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ باقی رہی احتساب کی بات تو ایک مہذب معاشرے میں قانون اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور حکومت کا کام صرف قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ گزشتہ دو ادوار میں شہباز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے۔ وہ خود کو خادم اعلیٰ کہتے ہیں۔ وہ کرپٹ اور بدعنوان بھی ہو سکتے ہیں۔ ان پر لگائے جانے والے الزامات سو فیصد درست بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر تمام ملکی و غیر ملکی سروے رپورٹوں کے مطابق دیگر صوبوں کی حکومتوں کے مقابلے میں ان کی کارکردگی سب سے بہتر رہی۔ کئی میگا پروجیکٹس کی تکمیل اس کا ثبوت ہے۔ قدرتی آفات کے مواقع پر وہ عوام کے شانہ بشانہ رہے۔ اس سب کے باوجود اگر شہباز شریف نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا ہے تو ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جن کی کارکردگی زیرو ہے۔ جنہوں نے سوائے لوٹنے کھسوٹنے کے ملک کو کچھ بھی نہیں دیا۔ جن کے صوبے میں سالانہ سینکڑوں بچے غذائی قلت سے ہلاک ہو رہے ہیں، جنہوں نے کراچی جیسے بنے بنائے شہروں کو اجاڑ کر کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کے خلاف کب قانون حرکت میں آئے گا؟ ہم ان کالموں میں متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ احتساب بلا امتیاز سب کا ہونا چاہئے۔ جنہوں نے ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹ کر دولت کے انبار لگائے ہیں، غیر ملکی بینک جن کی حرام کمائی سے بھرے پڑے ہیں، سب کو کٹہرے میں لا کر ان سے ایک ایک پائی وصول کرنی چاہئے۔ ورنہ صرف ایک جماعت کے وابستگان کو زیر دام لانے سے سیاسی انتقام کا ہی تاثر ابھرے گا۔ بدقسمتی سے ابھی تک اس حوالے سے قوم کو کوئی امید افزا اقدام نظر نہیں آرہا۔ کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے اب بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ جبکہ حکومت کی جانب سے نمائشی اقدامات سے بڑھ کر کوئی سنجیدہ کارروائی دیکھنے کو نہیں مل رہی اور عدالتوں میں جاری سست روی سے بھی عوام میں فطری طور پر مایوسی پھیل رہی ہے۔٭