امت رپورٹ
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد بھی نواز شریف اور مریم نواز نے ضمنی الیکشن سے قبل لاہور میں جلسے کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا ہے۔ بلکہ اب وہ اس موقع کو ’’ایک تیر دو شکار‘‘ کے مصداق استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ نون لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق قبل ازیں پارٹی کے تاحیات قائد نے لاہور کے ضمنی الیکشن میں اپنے امیدواروں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے ایک بڑے جلسے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے لئے نو یا دس اکتوبر کی تاریخیں زیر غور تھیں۔ تاہم اس سلسلے میں مشاورتی عمل کے دوران بعض پارٹی رہنمائوں نے مشورہ دیا کہ 12 اکتوبر کو ’’یوم سیاہ‘‘ آ رہا ہے۔ لہٰذا اسی روز جلسہ کرنے سے ایک سے زائد مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ 12 اکتوبر کو جلسے پر اتفاق رائے کر لیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے نون لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ لہٰذا ہر برس اس تاریخ کو مسلم لیگ ’’ن‘‘ یوم سیاہ کے طور پر مناتی ہے۔ ذرائع کے مطابق جلسے میں مریم کو پہلے اور بعد میں نواز شریف کو خطاب کرانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں تقاریر بھی تقریباً لکھی جا چکی ہیں۔ جن میں ضمنی الیکشن میں حکومت کی جانب سے ڈالی جانے والی مبینہ رکاوٹوں اور 12 اکتوبر کے واقعہ کا ذکر موجود ہے۔ تاہم اب ان تقاریر میں شہباز شریف کی گرفتاری اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کا ذکر بھی شامل کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا کہ پارٹی کے بعض مفاہمت پسند رہنما نئی صورت حال میں جلسے کے حق میں نہیں۔ تاہم نواز شریف کے بیانیے کو سپورٹ کرنے والے رہنما نہ صرف شیڈول کے مطابق جلسے کا انعقاد چاہتے ہیں، بلکہ ان کی خواہش ہے کہ اس جلسے میں میاں صاحب اپنے پرانے بیانیہ کو پوری شدت کے ساتھ بیان کریں تاکہ بیگم کلثوم کی وفات کے بعد ان کی خاموشی سے متعلق جو افواہیں زیر گردش ہیں وہ دم توڑ جائیں۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والی نئی مشاورت میں یہ خدشہ موجود ہے کہ نرم مزاج رہنما جلسہ منسوخ کرنے یا پھر ہلکا ہاتھ رکھنے پر کہیں نواز شریف کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہو جائیں۔ لیگی ذرائع کے بقول پارٹی کے حلقوں میں یہ تشویش موجود ہے کہ شہباز شریف سے شروع ہونے والا گرفتاریوں کا سلسلہ شاہد خاقان عباسی اور حمزہ شہباز تک پہنچ سکتا ہے۔ قریباً تین ماہ قبل نیب حمزہ شہباز کو بھی صاف پانی پروجیکٹ اسکینڈل میں طلب کر چکا ہے۔ حمزہ شہباز پر الزام ہے کہ انہوں نے پروجیکٹ میں غیر قانونی طریقے سے ٹھیکے دیئے اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر نہ ہونے کے باوجود بھرتیاں کیں۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کے خلاف بھی نیب نے ایل این جی اسکینڈل میں اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کی انکوائری شروع کر رکھی ہے۔ تاہم اس حوالے سے خواجہ برادران (خواجہ سعد اور خواجہ سلمان) زیادہ خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان تمام خدشات اور ممکنہ گرفتاریوں کے باوجود مسلم لیگ ’’ن‘‘ حکومت کے خلاف تاحال فیصلہ کن تحریک چلانے سے گریزاں ہے۔
شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد بہت سے نون لیگی رہنمائوں کو امید ہو چلی ہے کہ ’’نرم اور گرم‘‘ دو طرح کی پالیسیوں میں تقسیم مسلم لیگ ’’ن‘‘ ایک پیج پر آ جائے گی۔ یعنی مفاہمت کے نام پر ڈیل کی خواہشات رکھنے والے شہباز شریف کو اب اپنے بڑے بھائی نواز شریف کے سخت بیانیہ کو اپنانا پڑے گا۔ لیکن چار سے زائد اہم لیگی رہنمائوں اور عہدیداران سے آف دی ریکارڈ کی گئی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ الجھن کا شکار لیگی قیادت اب بھی سڑکوں پر آنے کے معاملے میں تقسیم ہے۔ حالانکہ اپنی گزشتہ روز کی پریس کانفرنسوں میں حمزہ شہباز نے سڑکوں پر آنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم لاہور میں موجود ایک اہم لیگی عہدیدار کے مطابق شہباز شریف کی گرفتاری کے فوری بعد پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں طے ہوا ہے کہ سڑکوں پر احتجاج کو آخری آپشن کے طور پر اختیار کیا جائے گا۔ جبکہ پارٹی صدر کی حالیہ گرفتاری کے خلاف پہلے مرحلے میں قانونی اور آئینی ’’جنگ‘‘ لڑی جائے گی۔ یعنی شہباز شریف کی گرفتاری کو عدالت میں چیلنج کرنے کے علاوہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھرپور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’سینیٹ کا اجلاس چل رہا ہے۔ جس میں شہباز شریف کی گرفتاری پر احتجاج کیا گیا ہے۔ جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ اس میں بھی بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی جائے گی۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست پر اگرچہ ابھی پیپلز پارٹی نے دستخط نہیں کئے لیکن وہ ریکوزیشن کے حق میں ہے‘‘۔ اسلام آباد میں موجود نون لیگ کے ایک سینئر رکن پارلیمنٹ نے بھی لاہور میں بیٹھے پارٹی عہدیدار کی بات کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سڑکوں پر آنے کا آپشن ہمیشہ آخری ہوتا ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کوئی پی ٹی آئی تو ہے نہیں کہ ایک دم دھرنوں اور احتجاج پر اتر آئے۔ شہباز شریف کی گرفتاری کے معاملے پر ہم پہلے پارلیمنٹ کو استعمال کریں گے۔ اس کے لئے پیپلز پارٹی سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے کئے جا رہے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں ہی موجود ایک اور سینئر لیگی عہدیدار کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے ’’مفاہمت‘‘ کی لائن گرفتاری سے بچنے کے لئے اختیار کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود انہیں بالآخر یہ دن دیکھنا پڑا۔ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ سے اتفاق کرنے والے پارٹی رہنما نئی صورت حال پر مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کی گرفتاری سے پارٹی کو وقتی نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن اس کے نتیجے میں کم از کم پارٹی ایک موقف پر متحد ہو جائے گی۔ اور یہ کہ اب شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے حامی رہنمائوں کے دماغ میں یہ بات آ جائے گی کہ نواز شریف درست بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔ تاہم عہدیدار کے مطابق بعض رہنمائوں نے دماغی طور پر تو نواز شریف کے بیانیہ کو درست تسلیم کر لیا ہے لیکن ان کے دل اب بھی شہباز شریف کے بیانیہ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ عہدیدار کے بقول ان رہنمائوں میں خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان، پرویز ملک، مریم اورنگ زیب، رانا ثناء اللہ اور چند دیگر پیش پیش ہیں۔ ان رہنمائوں کے خیال میں بدترین صورت حال میں بھی سڑکوں پر احتجاج کے معاملے کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔ پرویز ملک کے علاوہ ان کی اہلیہ اور بیٹا بھی اب اسمبلیوں میں ہیں۔ اس کے باوجود یہ گھرانہ بھی نواز شریف کے بیانیہ سے مکمل اتفاق نہیں رکھتا اور چاہتا ہے کہ حکومت مخالف احتجاج کا دائرہ کار ایک حد میں رہنا چاہئے۔ عہدیدار کے مطابق احسن اقبال اس حوالے سے ففٹی ففٹی ہیں۔ یعنی پچاس فیصد شہباز شریف اور پچاس فیصد نواز شریف کے بیانیہ سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ ایک کالج میں بطور پروفیسر پڑھاتے رہے ہیں لہٰذا لڑائی جھگڑے سے دور اپنے پڑھے لکھے امیج کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ عہدیدار نے بتایا کہ پرویز رشید اور خواجہ آصف، نواز شریف کے بیانیہ کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ یہ اور ان کے ہمنوا چند دیگر پارٹی رہنمائوں نے ہی مریم نواز اور نواز شریف کو ضمنی الیکشن سے پہلے لاہور میں ایک بڑے جلسے سے خطاب پر آمادہ کیا۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سینئر رہنما مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ جس طرح آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں چل رہی ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے ان کا اندازہ ہے کہ چند دنوں میں اور بھی کچھ واقعات ہونے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہی دیگر پارٹیوں سے بات کرنی پڑے گی۔ پھر سڑکوں پر آنا پڑا تو آ جائیں گے۔ فوری طور پر اس طرح کا بڑا فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ مشاہد اللہ خان کے بقول جس طرح آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں۔ پہلے نواز شریف، مریم اور صفدر کو گرفتار کیا گیا۔ بعد میں عدالتی فیصلے سے معلوم ہوا کہ ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔ اب اسی طرح شہباز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی کمپنی سے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کا ٹھیکہ منسوخ کر کے جو نیب سے پلی بارگین کر چکی ہے ایک دوسری کمپنی کو دے دیا تھا۔ اس اسکیم پر قومی خزانے کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا۔ زمین بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ پھر بھی شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ عمران خان اور شیخ رشید جو بار بار کہہ رہے تھے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو تکلیف پہنچائیں گے، اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ کافی عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ شہباز شریف جیل میں ہو گا۔ انہیں کیسے پتہ چلا کہ شہباز شریف کو گرفتار کیا جائے گا؟‘‘ مشاہد اللہ خان کا مزید کہنا تھا ’’ اب یہ لوگ میرا نام لے کر کارروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس میرے خلاف کچھ بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں سینیٹ میں میری تقریر بلکہ شعر تک برداشت نہیں ہو رہا۔ یہ مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو لے لیں۔ اصل بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان کے مسائل حل کر پائے گی کہ نہیں؟ پچھلے پچاس دنوں میں زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں۔ سی این جی اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھائی جا چکی ہیں۔ روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے۔ ایکسپورٹ کا برا حال ہے۔ نیشنل افیئرز کے حالات بدتر ہیں۔ لیکن حکومت کو سوائے مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے کسی چیز کی پروا نہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوا کہ یہ لوگ کسی ایجنڈے پر ہیں۔ جو ملک کے لئے خطرناک ہے۔ ہمیں قید کی فکر نہیں۔ ہم تو بڑے عرصے سے جیلیں کاٹ رہے ہیں۔ اب بھی ہر طرح کی صورت حال کے لئے تیار ہیں۔ قانونی جنگ بھی لڑیں گے۔ جمہوری جنگ بھی لڑ لیں گے۔ سڑکوں پر آنا پڑا تو یہ بھی کر لیں گے۔ لیکن جس طرح موجودہ حکومت ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے اس پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔اس سوال پر کہ نواز شریف اور مریم نواز کی معنی خیز خاموشی کے حوالے سے مختلف افواہیں زیرگردش ہیں۔ مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ایک خاندانی اقدار رکھنے والے شخص ہیں۔ جن حالات میں ان کی اہلیہ دنیا سے گئیں، اس کے اثرات ان پر مرتب ہوئے ہیں۔ جب انتخابی مہم کے دوران بے نظیر کا قتل ہوا تھا تو چالیس دن تک آصف زرداری نے بھی سیاسی سرگرمیاں شروع نہیں کی تھیں۔ اسی طرح بیگم کلثوم کے چہلم کے بعد لوگ میاں صاحب کو بھی ایکشن میں دیکھیں گے۔ جہاں تک ڈیل کی بات تھی اور اس حوالے سے رانا مشہود کے احمقانہ بیان کو اچھالا جا رہا تھا، شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد یہ پروپیگنڈہ بھی دم توڑ چکا ہے۔ ٭