ایک نوجوان کا ایمان افروزواقعہ

0

آخری حصہ
ابوالفضل نے اس لڑکے سے کہا: ’’سوچو اور غور کرو! تم نے حق تعالیٰ کے لیے ضرور کوئی عمل کیا ہو گا اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ کیا ہو۔‘‘
لڑکا تھوڑی دیر سوچ کر بولا: ’’ہاں! کچھ سال پہلے میرے استاد نے ایک آدمی میرے حوالے کیا تھا جس کو اس نے کسی راستے میں پکڑ کر قید کیا تھا، تو وہ اس کا سارا سازوسامان لے کر قلعہ میں آگیا اور اس سے کہا: ’’مجھ سے اپنی زندگی کا سودا اس مال کے بدلے میں کر لو جو تم اپنے شہر اور گھر والوں سے منگوائو گے، ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گا۔‘‘
اس آدمی نے کہا: ’’جو کچھ تم نے مجھ سے لے لیا، اس کے علاوہ دنیا میں میرے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘ میرا استاد اس کو کئی دنوں تک مارتا رہا، لیکن اس آدمی نے کچھ مان کر نہ دیا۔ ایک روز اس کو بہت مارا۔ تو اس نے قسم کھائی اور طلاق کی قسم اٹھائی کہ میرے پاس سوائے اس مال کے جو تم نے لے لیا ہے اور کچھ نہیں اور میرے شہر میں سوائے میرے گھر والوں کے نفقے کے جس کی مقدار ایک ماہ کے نفقے کے برابر ہے اور کچھ نہیں اور اب تو میرے اور میرے گھر والوں کے لیے زکوٰۃ لینا بھی جائز ہو گئی ہے۔
جب میرے استاد کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ شخص سچا ہے تو اس نے مجھ سے کہا: اس کو لے جاکر فلاں مقام پر قتل کر دو اور میرے پاس اس کا سر لے کر آئو۔ میں اس آدمی کو لے کر قلعے سے نیچے اترا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’’مجھے لے کر کہاں جارہے ہو اور مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے اسے اپنے استاد کا حکم سنا دیا۔ تو اس نے رونا اور گڑگڑانا شروع کر دیا اور مجھ سے التجا کرنے لگا کہ تم ایسا نہ کرو اور خدا کے واسطے دینے لگا اور مجھ کو بتایا کہ اس کی چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں، جن کے لیے کوئی کمانے والا نہیں اور مجھے خدا تعالیٰ سے ڈرانے لگا اور گزارش کی کہ تم مجھے آزاد کر دو۔
چنانچہ حق تعالیٰ نے میرے دل میں اس کے لیے رحم پیدا کر دیا۔ میں نے اس سے کہا: ’’اگر میں اس کے پاس تمہارا سر لے کر نہ پہنچا تو وہ مجھے قتل کر دے گا اور پھر تمہیں بھی پکڑ کے قتل کر دے گا۔‘‘
تو اس آدمی نے کہا: ’’اے لڑکے! تم مجھے چھوڑ دو اور استاد کے پاس تھوڑی دیر سے جائو۔ میں بھاگ کھڑا ہوں گا تو وہ مجھے نہیں پا سکے گا اور اگر مجھے پا بھی لیا تو تم میرے خون سے بری ہو جائو گے اور تمہارا استاد تمہاری محبت میں تم کو قتل نہیں کرے گا اور تمہیں میرے بارے میں اجر ملے گا۔ میرے دل میں اس کے لیے رحم کا جذبہ بڑھ گیا۔‘‘
میں نے اس سے کہا: ’’اچھا پھر ایسا کرو کہ ایک پتھر لے کر اسے میرے سر پر مارو، تاکہ میرا سر پھٹ جائے تو میں یہاں بیٹھ جائوں گا، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو جائے کہ تم کچھ میل کے فاصلے پر پہنچ گئے ہو، پھر میں قلعے کی طرف لوٹ جائوں گا۔‘‘
اس نے کہا: ’’مجھے یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی نجات کا تمہیں یہ صلہ دوں کہ تمہارے سر کو زخمی کر دوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’تمہاری اور میری نجات کا اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں۔‘‘
اس نے ایسا ہی کیا (یعنی میرا سر پھوڑا اور مجھے چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا) اور میں اپنی جگہ پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ مجھے یقین ہو گیا کہ وہ کوسوں میل دور جا چکا ہوگا، چنانچہ میں اپنے استاد کے پاس خون میں لت پت پہنچا تو اس نے کہا:
’’تمہیں کیا ہوا اور مقتول کا سر کہاں ہے؟‘‘
میں نے اس سے کہا: ’’آپ نے تو میرے حوالے انسان نہیں، بلکہ جن کیا تھا۔ ابھی ہم صحرا میں تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ اس نے مجھے زمین پر پچھاڑ دیا اور پتھروں سے مجھے مار کر خون میں لت پت کر دیا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا تو میں بے ہوش ہو کر گر پڑا، جب میں ہوش میں آیا اور مجھے آنے کی ہمت پیدا ہوئی تو میں آپ کے پاس آگیا۔‘‘
چنانچہ یہ سن کر میرے استاد نے کچھ لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑایا، ان لوگوں نے اس کو پورا ایک دن تلاش کیا، لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ اگر خدا تعالیٰ نے مجھے کسی عمل کے سبب بچایا ہے تو وہ یہی عمل ہے۔ چنانچہ ابوالفضل نے اس لڑکے کو اپنی فوج میں شامل کر لیا اور اس کی اچھی خاصی تنخواہ مقرر کر دی۔(الفرج بعد الشدۃ، شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ فہد یونیورسٹی ریاض سعودی عرب)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More