مسعود ابدالی
کل برازیل میں ہونے والے صدارتی انتخابات بے نتیجہ رہے، یعنی کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکا، چنانچہ اب پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوگا۔ 21 کروڑ نفوس پر مشتمل برازیل اپنے رقبے، آبادی اور دولت و ثروت کے اعتبار سے جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ BRICS تنظیم کا رکن ہے۔ اس تنظیم کے دوسرے ارکان روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک برازیل دنیا کے چند خوشحال ترین ملکوں میں تھا۔ اس کی سرکار ی تیل کمپنی پیٹرو براس Petrobras انتہائی منافع بخش ادارہ تھا۔ لیکن سیاستدانوں کی لوٹ مار اور بدعنوانی نے کمپنی اور ملک کو کنگال کردیا۔ لوٹی ہوئی دولت پیٹروبراس کے ایک پیٹرول پمپ سے ہی دنیا بھر میں بھیجی گئی۔ چنانچہ یہ اسکینڈل کار واش (Car Wash) آپریشن کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق چند برسوں کو دوران 17 ارب ڈالر چرا لئے گئے۔ لوٹ مار کے نتیجے میں کمپنی دیوالئے کے قریب پہنچ گئی اور گزشتہ برس پیٹروبراس نے 88 ارب 80 کروڑ ڈالر کی بکری (Sale) پر 14 کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ قومی دولت پر اس ڈکیتی میں سابق صدر لوئز لولا ڈی سلوا المعوف لولا، برازیل کی تاریخ کی پہلی خاتون صدر محترمہ ڈلما روسیف، فوجی جرنیل، وزرا، گورنرز، رئوسائے شہر، سیاستدان، سفیر اور کاروباری لوگ شامل ہیں۔ سابق صدر لولا آج کل 12 سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ بے ایمانی کے الزام میں پارلیمان نے صدر ڈلما روسیف کا مواخذہ کیا اور محترمہ کو صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا، لیکن حالیہ انتخابات میں وہ سینیٹ کی ایک نشست پر قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔ چوری اور بے ایمانی کے نتیجے میں یہ خوشحال ملک کنگال ہو گیا۔ برازیل آج کل شدید کساد بازاری اور بیروزگاری کا شکار ہے۔
غربت و مالی پریشانیوں سے ملک میں امن و امان کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے اور ایک وقت میں جنوبی امریکہ کا یہ سب سے پرسکون ملک اب جرائم کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس مافیا اور اجرتی قاتلوں کے ہاتھوں 64 ہزار بے گناہ مارے گئے۔
برازیل میں صدارتی نظام نافذ ہے اور صدر و نائب صدر کا انتخاب براہ راست ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی سینیٹ اور قومی اسمبلی کی طرح دو ایوانی مقننہ ہے، جس کے انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ حالیہ صدارتی انتخابات کے ساتھ پارلیمانی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے۔ یہاں ووٹر کی کم سے کم عمر 16 سال ہے اور ووٹ ڈالنا لازمی ہے۔ اگر18 سے 70 سال کے کسی رجسٹرڈ ووٹر نے بلا کسی عذر (سفر یا بیماری وغیرہ) ووٹ نہ ڈالا تو اس پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔
صدارت کیلئے ایک درجن سے زیادہ امیدوار تھے، لیکن اصل مقابلہ سوشل لبرل پارٹی کے ہیر بولسونارو، سزایافتہ سابق صدرر لولا کی ورکرز پارٹی کے فرنانڈو ہداد، ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے سیرو گویز اور Sustainability Network کی محترمہ مرینا سلوا کے درمیان تھا۔
ابتدائی نتائج کے مطابق ہیر بولسونارو 46.2 فیصد ووٹ لے کر سرفہرست رہے۔ ورکرز پارٹی کے فرنانڈو ہداد کو 29.1 فیصد ملے اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سیر گومیز 12.5 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔ 28 اکتوبر کو ہیر بولسورنارو اور فرنانڈو ہداد کے درمیان فیصلہ کن مقابلہ ہوگا، جسے Run-off مرحلہ کہتے ہیں۔
63 سالہ ہیر بولسونارو دائیں بازو کے انتہائی قدامت پسند سیاست دان ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے پارلیمان کے رکن ہیں۔ جناب بولسونارو فوج میں کپتان رہ چکے ہیں اور انہوں نے نائب صدر کیلئے ایک سابق جرنیل کو منتخب کیا ہے۔ بولسونارو کا نعرہ ہے ’’سب سے اوپر بزازیل اور اس سے بھی اوپر خدا‘‘۔ وہ کرپشن کے خاتمے کیلئے فوجی عدالتوں بلکہ محدود مارشل لا کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں عورتوں کا صحیح مقام گھر اور اصل کام بچوں کی پرورش ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی برائیوں کی جڑ تباہ حال خاندانی نظام ہے، جس کی تعمیر نو کیلئے خواتین کو گھر واپس جانے کی ضرورت ہے۔ بولسونارو کے خیال میں ہم جنسی کی ایک مہذب معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔ وہ برسراقتدار آکر Gay Clubs بند کروادیں گے اور سڑکوں پر ہم جنسی کا مظاہرہ غیر قانونی ہوگا۔ ان کے خیال میں شہریوں کو اسلحہ رکھنے کا حق ہے۔ اگر شہری اور ان کے گھر مسلح ہوں تو جرائم پیشہ عناصر خوفزدہ رہیں گے۔ اپنے خیالات کے اعتبار سے ان کے اور صدر ٹرمپ میں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ اس جدت کی بنا پر وہ نوجوانوں میں خاصے مقبول ہیں، لیکن ان کے دشمنوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ انتخابی مہم کے دوران انہیں کسی نے چھرا گھونپ دیا، جس کی بنا پر وہ ایک ہفتہ اسپتال میں رہے۔
ان کے مقابلے میں 55 سالہ فرنانڈو ہداد ورکرز پارٹی کے امیدوار ہیں۔ سابق صدر لولا کی گرفتاری کی بنا پر پارٹی نے انہیں میدان میں اتارا ہے۔ فرنانڈو برازیل کے سب سے بڑے شہر ساو پاولو کے رئیس شہر اور سزا یافتہ صدر لولا کے سیاسی و نظریاتی شاگرد ہیں، موصوف مرکزی مزدور یونین کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ لولا پر مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا ہے اور اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو لولا کو صدارتی معافی دیدی جائے گی۔ فرنانڈو فلسفے میں پی ایچ ڈی ہیں اور انہوں نے معاشیات و قانوں کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ وزیر محنت بھی رہ چکے ہیں۔ بولسونارو کے انتہا پسندانہ خیالات کی بنا پر خواتین کی انجمنیں، مزدور یونین، وکلا اور لبرل عناصر فرنانڈو کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان انتخابات میں تیسرے نمبر پر آنے والے مسٹر گومیز نے بھی فرنانڈو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دیکھنا ہے کہ برازیل کے لوگ 28 اکتوبر کو کیا فیصلہ سناتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post