میں نے اس سے شخص سے کہا: ’’میں کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتا، مگر تم مطاف کی طرف جاؤ اور کوفیوں کو آواز لگا کر کہو کہ باب ابراہیمؑ پر تمہارے شہر کا ایک علوی حسینی آدمی یہ چاہتا ہے کہ تم میں سے کوئی ایسا آدمی آئے جو کہ اس کو موجودہ حال بتائے، سو جو تمہارے ساتھ آئے اس کو لے آؤ۔‘‘
وہ چلا گیا اور نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد آیا اور اس کے ساتھ ایک جماعت تھی، جو میرے پوشیدہ حال سے باخبر تھی۔
ان کوفیوں نے مجھ سے کہا: ’’اے شریف تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا: ’’یہ آدمی ایک معاملے کی وجہ سے جو میرے اور اس کے درمیان ہے، میرا حال اور نسب جاننا چاہتا ہے، اس لیے جو کچھ تم میرے بارے میں جانتے ہو، وہ اسے بتاؤ۔‘‘
ان لوگوں نے میرے نسب کے بارے میں بتا دیا اور اس سے کہا: ’’یہ غربت اور فقر و فاقہ کا مارا آدمی ہے۔‘‘
چناں چہ یہ سن کر وہ چلا گیا، پھر تھوڑی دیر بعد آیا اور وہی تھیلی نکالی جو میں نے اس کو دی تھی اور کہنے لگا: ’’یہ پوری تم لے لو، حق تعالیٰ تمہارے لیے اس میں برکت دے۔‘‘
میں نے کہا سنو! ’’جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا، کیا وہ کافی نہیں ہے، اب تم میرے ساتھ مذاق بھی کرنے لگے۔ جب کہ میں موت کی حالت میں ہوں۔‘‘ کہنے لگا: ’’خدا کی پناہ، بخدا! یہ تمہارے لیے ہی ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’پہلے تو تم اس میں سے ایک دینار دینے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اور اب مجھ کو پوری تھیلی دے رہے ہو۔‘‘
اس نے کہا: ’’دراصل یہ تھیلی میری نہیں تھی اور نہ ہی میرے لیے یہ جائز تھا کہ میں تمہیں اس میں سے کچھ دوں، چاہے ایک دینار ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو مجھے میرے شہر کے ایک آدمی نے دی تھی اور مجھ سے گزارش کی تھی کہ میں عراق یاحجاز میں سے کسی علوی، حسینی فقیر اور گمنام آدمی کو تلاش کردوں۔ تم سے پہلے یہ صفات کسی آدمی میں جمع نہیں ہوئی تھیں۔ جب میں نے تمہاری امانت، فقر، عفت اور تمہارے صبر کو دیکھا اور تمہارا نسب صحیح معلوم ہوگیا تو ہو میں نے تم کو دے دی۔‘‘
میں نے اس کو کہا: ’’حق تعالیٰ تم پر رحم کرے۔ اگر تم پورا ثواب لینا چاہتے ہو تو اس میں سے ایک دینار لے کر میرے لیے کوئی کھانے کی چیز خرید لو، تاکہ میں کھالوں۔‘‘
اس نے کہا: ’’میری تم سے ایک درخواست ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’کہو۔‘‘
کہنے لگا: ’’میں ایک امیر آدمی ہوں اور جو کچھ میں نے تم کو دیا ہے، اس میں سے میرا کچھ بھی نہیں ہے، جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا۔ سو میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم کوفہ تک میری مہمان داری میں رہو اور تمہارے دینار خرچ ہونے سے بچ جائیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں تو ہل بھی نہیں سکتا، سو جس طرح سے چاہو مجھ کو سوار کراؤ۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس سے چلا گیا اور کچھ سواریاں لے کر آیا اور ایک سواری پر مجھ کو سوار کیا اور اس وقت جو کچھ اس کے پاس تھا مجھے کھلایا۔ دوسرے دن اس نے میرے لیے کپڑے بنوائے۔ وہ میری خود ہی خدمت کیا کرتا تھا اور مجھے اپنے کجاوے میں کوفہ تک سوار کرایا۔ پھر جب میں وہاں پہنچ گیا تو اس نے مجھے اپنے پاس سے اور دینار دیئے اور مجھ سے کہا: ’’اس سے اپنے لیے کچھ سامان خرید لو اور پھر ہم جدا ہوگئے۔‘‘
میں اس کے لیے دعا کرتا ہوں اور اس کا شکر گزار ہوں۔ میں نے اس تھیلی میں سے ایک دینار بھی خرچ نہیں کیا، جو دینار اس آدمی نے مجھے الگ سے دیئے تھے، ان میں سے میانہ روی کے ساتھ خرچ کرتا رہا۔ یہاں تک مجھے ایک سستی زمین ملی تو میں نے اس کو اس تھیلی کے دینار سے خرید لیا۔ اس نے خوب غلہ اور پھل دیا۔ اب میں خدا عزوجل کی طرف سے بڑی نعمت اور خیر کثیر میں ہوں اور حق تعالیٰ کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔‘‘ (الفرج بعد الشدۃ، تصنیف: شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ فہد یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)
٭٭٭٭٭