حضرت اُم سُلیمؓ ان خوش نصیب صحابیات میں سے ہیں۔ جن کے بارے میں آں حضرتؐ نے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی، ان کا اسم گرامی رمیصاء تھا اور حضرت جابرؓ راوی ہیں کہ آں حضرتؐ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو جنت میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو اچانک میری نگاہ ابو طلحہؓ کی بیوی رمیصاء (ام سلیمؓ) پر پڑی۔ عہد رسالت میں ان کے کئی واقعات ایسے ہیں، جنہوں نے ان کو صحابی خواتین میں ایک مقام عطاء کیا ہے۔
ان کے نکاح کا واقعہ عجیب ہے، یہ اپنے نکاح سے پہلے اسلام لاچکی تھیں، حضرت ابو طلحہؓ جو بعد میں ان کے شوہر بنے، اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، حضرت ابو طلحہؓ نے کفر ہی کی حالت میں ان کو نکاح کا پیغام دیا، اس کے جواب میں ام سلیمؓ نے ان سے کہا: ابو طلحہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ تم نے ایک ایسی لکڑی کو معبود بنا رکھا ہے جو زمین سے اگی ہے اور اسے فلاں قبیلے کے ایک حبشی لڑکے نے گھڑا ہے، تو کیا تمہیں ایسی لکڑی کو معبود قرار دیتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تم جیسا آدمی کا پیغام رد نہیں کیا جا سکتا، لیکن میں مسلمان ہو چکی ہوں اور تم ابھی کافر ہو، اگر تم اسلام لے آئو تو مجھے اس کے سوا کوئی مہر نہیں چاہئے۔
ابو طلحہ نے کہا لیکن تم تو اس مرتبے کی عورت ہو کہ یہ تمہارا مہر نہیں بن سکتا، تمہیں تو سونا چاندی مہر میں ملنا چاہئے۔ ام سلیمؓ نے فرمایا لیکن مجھے نہ سونا چاہئے نہ چاندی، میں تم سے بس اسلام چاہتی ہوں، یہ سن کر ابو طلحہ کے دل میں اسلام کی حقانیت واضح ہوگئی اور نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آں حضرتؐ نے فرمایا ابو طلحہ اس حال میں آرہا ہے کہ اس کی آنکھوں کے درمیان اسلام کا نور چمک رہا ہے، پھر ابو طلحہؓ اسلام لے آئے اور یہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ (تراشے صفحہ نمبر 74)
وعدے کو پورا کرنے والے
حافظ ابو القاسم طبرانیؒ نے اپنی سند سے حضرت جریرؓ کا ایک بصیرت افروز واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت جریرؓ نے اپنے غلام کو ایک گھوڑا خرید لانے کا حکم دیا، وہ تین سو درہم میں گھوڑا خرید لایا اور گھوڑے کے مالک کو رقم دلوانے کے لئے ساتھ لایا، حضرت جریرؓ کو طے شدہ دام بھی بتلائے گئے اور گھوڑا بھی پیش کردیا۔
آپؓ نے اندازہ کیا کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زائد ہے، آپؓ نے گھوڑے سے مالک سے پوچھا کیا آپ چار سو درہم میں اسے فروخت کریں گے، اس نے جواب دیا جیسے آپ کی مرضی، پھر فرمایا آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے بھی زائد ہے، اسی طرح گھوڑے کی قیمت بڑھتے بڑھتے آٹھ سو درہم تک پہنچ گئی، بالآخر آٹھ سو درہم میں گھوڑا خریدا اور رقم مالک کے حوالے کردی۔
آپؓ سے سوال کیا گیا کہ مالک تین سو درہم پر راضی تھا تو آپؓ نے اسے آٹھ سو درہم دے کر نقصان کیوں کردیا؟ آپؓ نے جواب دیا کہ گھوڑے کے مالک کو صحیح قیمت کا اندازہ نہیں تھا، میں نے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی ہے، کیونکہ نبی کریمؐ کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا، میں نے اس وعدے کا ایفاء کیا ہے۔ (نووی شرح مسلم شریف)
٭٭٭٭٭