ضیاءالرحمن چترالی
اس کے بعد میرا تقرر الجیریا میں جرمنی کے سفیر کی حیثیت سے ہوا۔ اس تقرر سے پہلے محکمہ خارجہ میں یہ بحث ہوتی رہی کہ کیا ایک عیسائی ملک کا سفیر ایک مسلم بھی ہو سکتا ہے؟ آخر کار حکومت جرمنی نے فیصلہ کیا کہ کوئی جرمنی شہری کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتا ہے اور وہ جرمنی کا سفیر بھی بن سکتا ہے۔
اس دوران فوکایامہ نے اپنی کتاب ’’END OF HISTORY‘‘ لکھی۔ اس میں اس نے بڑی خوش اسلوبی سے بتایا کہ اب انسانیت کی تاریخ آخری دور میں داخل ہو چکی ہے، اس کا زوال ہو چکا ہے اور اب کوئی ایسا نظریہ نہیں بچا ہے، جو انسانیت کو بچا سکے۔ دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ سوویت یونین کا بکھرائو، کمیونسٹ نظریئے کی ناکامی، مغرب کا اخلاقی زوال اور سرمایہ دارانہ نظام کا استحصال وغیرہ اس کتاب کے اہم موضوعات تھے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ اب دنیا میں جمہوریت، ماڈرنزم اور سیکولرزم کا وجود رہ گیا ہے۔
کتاب پڑھنے کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ اس کتاب کا جواب ضرور دوں گا، چنانچہ اس کے جواب میں، میں نے ’’ISLAM THE ALTERNATVIE‘‘ لکھنا شروع کیا اور دن رات ایک کر کے تین ہفتے کے اندر اسے تیار کر دیا۔ اس کتاب میں میں نے یہ بتایا کہ تاریخ ختم نہیں ہوئی، بلکہ اسلام انسانیت کا نجات دہندہ ہونے کی وجہ سے موجودہ نظام کی ناکامی کے بعد واحد متبادل ہے اور موجودہ دنیا کو تباہی سے صرف اسلام ہی بچا سکتا ہے۔ پوری دنیا کو اسلام کے بارے میں غور و خوض کرنا چاہیے، اسلام فرد اور سماج کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ یہ ایک خدا کا نام ہے، جو انسانی فطرت کے مطابق ہے، اسے اسی خدا نے بنایا ہے، جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔
اس کتاب کو میں نے آٹھ پبلشرز کے پاس بھیجا۔ دو نے شائع کرنے پر رضا مندی ظاہر کی اور ایک کے ساتھ میں نے معاہدہ کر لیا۔ جرمنی کے ایک اہم پبلشرز نے 1992ء کے موسم بہار میں کتاب شائع کی۔ کتاب کا بازار میں آنا تھا کہ ہر طرف سے مذمت ہونے لگی۔ پریس ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر میری مذمت کی جانے لگی اور یہ لکھا جانے لگا کہ یہ شخص کہتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں، زانیوں کو سنگسار کیا جائے، بے چاری ہوف مین کی بیوی کی تین سوتنیں آئیں گی۔ محکمہ خارجہ میں خطوط کا انبار لگ گیا، جن میں میری اور میری کتاب کی خوب مذمت کی گئی۔ جب ہنگامہ زیادہ ہوا تو وزیرِ خارجہ نے اپنے تین معاونین کی مدد سے کتاب کا گہرا مطالعہ کیا اور اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کتاب میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اسلام کو Objective طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب اسلام کا تعارف کرانے والی ہے اور جرمنی کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ ہندو، مسلم، بدھ اور عیسائی جو کچھ بننا چاہے، بنے اور جس مذہب پر چلنا چاہے، چلے، لیکن اخبارات کے حملے جاری رہے اور وہ لکھتے رہے کہ ایک جرمن سفیر لوگوں کو خود کشی کی ترغیب دے رہا ہے۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ ایک شخص نے چار ہفتے تک میرے پاس کام کیا، پھر کسی وجہ سے خود کشی کر لی۔ وہ خود کشی بلاوجہ میرے کھاتے میں ڈال دی گئی، اسی طرح اخبارات نے یہ لکھا کہ اس شخص نے سفارت خانے کی خواتین اسٹاف کو اسکارف اوڑھا دیا ہے، حالانکہ یہ بات بھی غلط تھی۔ جہاں میں تھا، وہاں مسلم خواتین سر کو نہیں ڈھانکتی تھیں تو دیگر تمام جرمن خواتین کو سر کیسے ڈھانکیں گی۔
یہ اتفاق تھا کہ میری مذکورہ کتاب ایسے وقت میں منظر عام پر آئی، جب سلمان رشدی ملعون کی بدنام زمانہ کتاب ’’SATANIC VERSES‘‘ (شیطانی آیات) کے خلاف ہنگامہ جاری تھا اور اس سے ایک سال قبل مغربی ممالک نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ ان حالات میں یہ کتاب کافی مقبول ہوئی۔ غرض یہ کہ یہ وہ حالات ہیں، جن میں میں نے اسلام قبول کیا۔
٭٭٭٭٭