قصیدہ جامیؒ کا ترجمہ:
’’14۔ ہمارے لئے کیسا اچھا وقت ہوتا کہ ہم گردِ راہ سے آپ کی خدمت گرامی میں پہنچ جاتے اور آنکھوں میں آپؐ کے کوچۂ مبارک کی خاک کا سرمہ لگاتے‘‘۔
وہ دن خدا کرے کہ مدینہ کو جائیں ہم
خاک در رسولؐ کا سرمہ لگائیں ہم
’’15۔ مسجد نبویؐ میں دوگانۂ شکر ادا کرتے۔ سجدۂ شکر بجا لاتے، روضۂ اقدس کی شمع روشن کا اپنی جان حزین کو پروانہ بناتے۔ 16۔ آپ کے روضہ اطہر اور گنبد خضرا کے اس حال میں مستانہ اوربے تابانہ چکر لگاتے کہ دل صد مہائے عشق اور وفور شوق سے پاش پاش اور چھلنی ہوتا۔
17۔ حریم قدس اور روضہ پر نور کے آستانہ محترم پر اپنی بے خواب آنکھوں کے بادلوں سے آنسو برساتے اور چھڑکاؤ کرتے۔
18۔ کبھی صحن حرم میں جھاڑو دے کر گردو غبار کو صاف کرنے کا فخر اور کبھی وہاں کے خس و خاشاک کو دور کرنے کی سعادت حاصل کرتے۔
19۔ گو گردو غبار سے آنکھوں کو نقصان پہنچتا ہے، مگر ہم اس سے مردمک چشم کے لئے سامان روشنی مہیا کرتے اور گوخس و خاشاک زخموں کے لئے مضر ہے مگر ہم اس کو جراحت دل کے لئے مرہم بناتے۔
20۔ آپؐ کے منبر شریف کے پاس جاتے اور اس کے پائے مبارک کو اپنے عاشقانہ زرد چہرہ سے مل مل کر زرین و طلائی بناتے۔
21۔ آپ کے مصلائے مبارک و محراب شریف میں نماز پڑھ پڑھ کر تمنائیں پوری کرتے اور حقیقی مقاصد میں کامیاب ہوتے اور مصلے میں جس جائے مقدس پر آپ کے قدم مبارک ہوتے تھے، اس کو شوق کے اشک خونیں سے دھوتے۔
22۔ آپ کی مسجد اطہر کے ہر ستون کے پاس ادب سے سیدھے کھڑے ہوتے اور صدیقین کے مرتبہ کی درخواست و دعا کرتے۔
23۔ آپ کی دل آویز تمناؤں کے زخموں اور دل نشین آرزوؤں کے داغوں سے (جو ہمارے دل میں ہیں) انتہائی مسرت کے ساتھ ہر قندیل کو روشن کرتے۔
24۔ اب اگر میرا جسم اس حریم انوار و شبستان اطہر میں نہیں ہے، لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ روح وہیں ہے۔
25۔ میں اپنے خود بیں و خود رائے نفس امارہ سے سخت عاجز آچکا ہوں۔ ایسے عاجز و بے کس کی جانب التفات فرمایئے اور بخشش کی نظر ڈالئے۔
26۔ اگر آپ کے الطاف کریمانہ کی مدد شامل حال نہ ہوگی تو ہم عضو معطل و مفلوج ہو جائیں گے اور ہم سے کوئی کام انجام نہ پاسکے گا۔
27۔ ہماری بد بختی ہمیں صراط مستقم و راہ خدا سے بھٹکا رہی ہے، خدارا ہمارے لئے خداوند قدوس سے دعا فرمایئے۔
28۔ (یہ دعا فرمایئے) کہ خداوند قدوس اولاً ہم کو پختہ
یقین اور کامل اعتقاد کی عظیم الشان زندگی بخشے اور پھر احکام دین میں مکمل استقلال اور پوری ثابت قدمی عطا فرمائے۔
29۔ جب قیامت کی حشر خیزیاں اور اس کی زبردست ہولناکیاں پیش آئیں تو مالک یوم الدین رحمن اور رحیم ہم کو دوزخ سے بچا کر ہماری عزت بچائے۔
30۔ اور ہماری غلط روی اور صغیرہ کبیرہ گناہوں کے باوجود آپ کو ہماری شفاعت کے لئے اجازت مرحمت فرمائے، کیونکہ بغیر اس کی اجازت شفاعت نہیں ہو سکتی ہے۔
31۔ ہمارے گناہوں کی شرم سے آپ سر خمیدہ چوگاں کی طرح میدان شفاعت میں سر جھکا کر (نفسی نفسی نہیں بلکہ) ’’یا رب امتی‘‘ فرماتے ہوئے تشریف لائیں۔
32۔ آپ کے حسن اہتمام اور سعی جمیل سے دوسرے مقبول بندگان خدا کے صدقے میں غریب جامی کا بھی کام بن جائے گا۔‘‘
شنیدم کہ در روز امید و بیم
بداں را بہ نیکاں بنجشد کریم
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭