شوکت صدیقی اپنے الزامات کے ثبوت دینے میں ناکام رہے-سپریم جوڈیشل کونسل رپورٹ
اسلام آباد(رپورٹ : اختر صدیقی )اسلام آبادہائی کورٹ کے برطرف جج شوکت صدیقی کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی تفصیلی رائے میں اور کارروائی کے دوران کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کی ایجنسیوں کے افسران سے ملاقات پر پانچ سوالات اٹھائے۔ کونسل کا پہلا سوال تھا کہ شوکت صدیقی اپنی رہائش گاہ پر فوجی افسران سے کیوں ملے؟ فوجی افسران کو عدالتی امور پر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟۔ شوکت صدیقی نے فوجی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ شوکت صدیقی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟۔ شوکت صدیقی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو کیوں اعتماد میں نہ لیا۔جبکہ تفصیلی رائے لکھتے ہوئے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ نے کہاہے کہ ایسا جج جو ایجنسیوں کی طاقت سے خوف زدہ ہو تو یہ اس کے کردار کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے اور اس پہلو سے اس پر سوالات اٹھتے ہیں؟اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے والے فورم سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے برطرف کرنے کی رائے کی تفصیلات جاری کی ہیں۔39صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کی صدارت چیف جسٹس ثاقب نثار نے کی تھی جبکہ دیگر ارکان میں جسٹس آصف کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، سندھ ہائیکورٹ کی چیف جسٹس احمد علی شیخ اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یاور علی شامل تھے۔کونسل کی کارروائی صرف ایک دن ہی ہوئی اس کے دوران جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے یکم اکتوبر کو تفصیلی دلائل دیے۔ کونسل کی کارروائی کی تفصیلات میں شامل جسٹس شوکت صدیقی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان سے خفیہ ایجنسی کے کارندوں نے ملاقاتیں کیں۔کونسل کی تفصیلی رپورٹ کیمطابق جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے دفاع میں جمع کرائے پہلے جواب میں کسی خاص شخص کا نام نہیں لیا، ابتدائی جواب میں بھی تفصیل فراہم نہیں کی، شوکت صدیقی نے بعد میں بریگیڈیئر عرفان رامے اور میجر جنرل فیض حمید کا نام لیا۔کونسل کی رپورٹ میں جسٹس آصف کھوسہ نے لکھا ہے کہ ایک جج کو دیگر ججز اور ان کے فیصلوں سے متعلق محتاط ریمارکس دینے چاہئیں۔ جسٹس صدیقی نے بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس منیر اور ارشاد حسن خان پر تنقید کی، اس طرح سے تضحیک آمیر انداز میں شوکت صدیقی کو پبلک فورم پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی، مردہ یا زندہ ججوں سے متعلق تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال جج کے شایان شان نہیں۔رپورٹ کے مطابق شوکت صدیقی نے سابق چیف جسٹس صاحبان اور ان کے فیصلوں سے متعلق جو کہا وہ ان کی زاتی رائے ہے، ملک کے سیاسی اور آئینی امور سے متعلق عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کرنا جج کیلئے شجر ممنوعہ ہے۔ جسٹس کھوسہ کی کونسل تفصیلی رپورٹ کے مطابق شوکت صدیقی اپنے تحریری جوابات میں الزامات کو ثابت کرنے کیلئے مواد دینے میں ناکام رہے۔کونسل رپورٹ کے مطابق شوکت صدیقی نے اپنے جواب میں فیض آباد دھرنا، بول ایگزٹ گروپ کے مقدمات میں کچھ افراد کے اثر انداز ہونے کا الزام لگایا تاہم ثبوت نہیں دیا گیا۔ کونسل کی رپورٹ لکھنے والے جج آصف کھوسہ کی رائے میں ایسا جج جو ایجنسیوں کی طاقت سے خوف زدہ ہو تو یہ اس کے کردار کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے اور اس پہلو سے اس پر سوالات اٹھتے ہیں۔اپنی کارروائی کے دوران کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کی ایجنسیوں کے افسران سے ملاقات پر پانچ سوالات اٹھائے۔ کونسل کا پہلا سوال تھا کہ شوکت صدیقی اپنی رہائش گاہ پر فوجی افسران سے کیوں ملے؟ فوجی افسران کو عدالتی امور پر کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟۔ شوکت صدیقی نے فوجی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کی؟۔ شوکت صدیقی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو کیوں آگاہ نہیں کیا؟۔ شوکت صدیقی نے چیف جسٹس آف پاکستان کو کیوں اعتماد میں نہ لیا؟۔کونسل کی رپورٹ کے مطابق شوکت صدیقی نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا، انہوں نے خود کو سچا ثابت کرنے کیلئے ملک کی عدلیہ کو بدنام کیا۔واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی سفارش پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو متنازع تقریر کے معاملے پر انہیں ان کے عہدے سے ایک روزقبل ہی برطرف کیاگیاہے اور وزارت قانون و انصاف نے جسٹس شوکت عزیز صدیق کی برطرفی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیاتھا۔وزارت کے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ آرٹیکل 209 (5) اور سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان کی جانب سے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 209 (6) کے ساتھ آرٹیکل 48 (1) کے تحت کی جانے والی سفارش پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹایا گیا۔خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اداروں کے خلاف متنازع تقریر کے معاملے پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کو ہٹانے کے لیے سمری سیکریٹری قانون کو بھجوائی تھی، جسے منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا تھا۔خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج ہیں جن کے خلاف ملک کے اہم اداروں کے خلاف متنازع بیان دینے کے معاملے میں تحقیقات جاری تھیں۔عہدے سے ہٹائے جانے پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رد عمل دیا کہ میرے لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں، تقریبا 3 سال پہلے سرکاری رہائش گاہ کی مبینہ آرائش کے نام پر شروع ہونے والے ایک بے بنیاد ریفرنس سے پوری کوشش کے باوجود جب کچھ نہ ملا تو ایک بار ایسوسی ایشن سے میرے خطاب کو جواز بنا لیا گیا، جس کا ایک ایک لفظ سچ پر مبنی تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میرے مطالبے اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا اور نہ ہی میری تقریر میں بیان کئے گئے حقائق کو جانچنے کے لیے کوئی کمیشن بنایا گیا۔