سمرقند کی دوبارہ فتح، ایک انوکھا واقعہ (آخری حصہ )

0

عبدالمالک مجاہد
سمرقندی واپس ہوا۔ اب اس کا سینہ توحید کے نور سے بھرا ہوا تھا۔ جہاں پر جاتا وہاں سیدھا مسجد میں داخل ہوتا۔ نماز پڑھتا اور اپنے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کر کے اپنی منزل کو روانہ ہو جاتا۔ اس سفر کی ایک عجیب لذت تھی۔ اب اس کے لیے کوئی شخص اجنبی نہ تھا نہ وہ دوسروں کے لیے اجنبی۔ مسجد میں جاتا نماز ادا کرتا۔ لوگ اس کی طرف دیکھتے، اس کی شکل و شباہت سے پتہ چل جاتا کہ وہ مسافر ہے۔ اس علاقے کی کسی بستی کا رہنے والا نہیں ہے اور پھر نمازیوں میں اس کی مہمان نوازی کے لیے مقابلہ شروع ہو جاتا۔ ہر کوئی اسے اپنے گھر میں لے جانے، اس کی ضیافت کے لیے اصرار کرتا۔ اب اس کو مسجد کی اہمیت اور اس دین حنیف کی بے شمار خوبیوں کا ادراک ہو چلا تھا۔ پھر ایک دن آیا، جب وہ سمرقند میں داخل ہو رہا تھا۔ وہ سیدھا معبد کی طرف گیا۔ اس نے کاہنوں کو رپورٹ دینی تھی۔ ان کو خلیفہ المسلمین کے جواب سے مطلع کرنا تھا۔ وہ معبد میں داخل ہوا۔ اب وہ اس کی تاریک گلیوں اور غلام گردشوں سے خائف نہیں تھا۔
پتھروں سے بنے ہوئے بت جو کبھی اس کے لیے معمہ سے کم نہ تھے، اب ان کی حقیقت سے واقف ہو گیا تھا۔ یہ بت تو ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ کسی کاریگر کے ہاتھوں کارپینٹر کا کمال، نہ نفع ونقصان کے مالک، اپنے آپ کو کلہاڑے کی ضرب سے نہ بچا سکنے والے، وہ ان پر حقارت کی نظر ڈالتا ہوا بڑے دروازے پر جا پہنچا۔ دربان اس کو خوب پہچانتا تھا۔ پھر اس کے لیے دروازے کھلتے چلے گئے۔ چند منٹوں کے بعد وہ بڑے کاہن کے سامنے کھڑا تھا۔ کاہن کو اسے دیکھ کر اعتبار نہ آیا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کو قتل کر دیا گیا ہو گا، مگر ان کا ایلچی ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے ان کو تفصیل سے سفر کے حالات بیان کیے۔ کیسے گیا، کہاں کہاں سے گزرا۔ اس نے اپنا اسلام لانے کا واقعہ وہ جان بوجھ کر نہ بتایا۔ خلیفہ سے ملاقات اور حکم نامہ حاصل کرنے تک ایک ایک بات ان کے گوش گزار کی گئی۔ کاہنوں کے چہروں پر مسکراہٹ چھا گئی۔ بشاشت ان کے چہروں سے عیاں تھی۔ ہماری آزادی کا وقت آگیا ہے۔ خلیفہ کی طرف سے واضح آرڈر ہے کہ قاضی کے سامنے اس مقدمے کو پیش کیا جائے۔ کاہنوں کو مکمل آزادی ہو گی کہ وہ اپنے دلائل دیں۔ مدعا علیہ قتیبہؒ بھی عدالت میں کٹہرے میں کھڑا ہوگا اور پھر قاضی جو بھی فیصلہ دے، اس کو نافذ کیا جائے گا۔
آخر کار وہ دن آگیا، جس کا اہل سمر قند کو انتظار تھا۔ بے شمار لوگ اس تاریخی مقدمے کی کارروائی سننے کے لیے چلے آئے۔ عدالت مسجد میں لگی ہوئی ہے۔ وہ کاہن جن کو کبھی کسی شخص نے نہ دیکھا تھا۔ مقدمے کی پیروی کے لیے حاضر تھا۔ مسلمانوں کا سپہ سالار قائد فاتح قتیبہ بن مسلم بھی حاضر ہے۔ سب کے سب قاضی کے منتظر ہیں۔
کاہن کس بات کی امید پر مقدمہ لے آئے ہیں؟ ذرا غور کیجیے، ایک فاتح قوم مفتوح علاقوں سے نکل جائے۔ مقدمہ جس شخصیت پر دائر کیا گیا ہے، وہ عظیم قائد اور سپہ سالار ہے۔ نگاہیں مسجد کے دروازوں کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ کب قاضی داخل ہوتا ہے۔ حاضرین کو بہت زیادہ دیر نہیں کرنی پڑی، ایک چھوٹے قد کا نحیف جسم کا مالک، معمولی لباس پہنے ہوئے سر پر عمامہ رکھے دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے پیچھے اس کا غلام ہے۔ لوگوں میں سناٹا چھا گیا۔ بعض نے اپنی انگلیاں منہ میں دبا لی ہیں۔ اچھا یہ ہے مسلمانوں کا قاضی۔ یہ خلیفہ اور سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کے خلاف فیصلہ دے گا۔
قاضی نے مسجد کے ایک کونے میں اپنی نشست کو سنبھالا۔ اس کا غلام اس کے سر پر کھڑا ہے۔ بغیر کسی لقب کے امیر کا نام لے کر اسے بلایا جا رہا ہے کہ وہ عدالت کے سامنے حاضر ہو۔ امیر شہر حاضر ہوا۔ عدالت نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اب غلام کاہنوں کے سردار کو بلوا رہا ہے۔ جو امیر کے ایک طرف بیٹھ گیا اور اب عدالت کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔
قاضی اپنی نہایت پست آواز میں کاہن سے مخاطب ہے: بتائو تم کیا کہتے ہو؟
اس نے کہا: ’’عظیم قائد قتیبہ بن مسلم ہمارے ملک میں دھوکے سے داخل ہوئے۔ ہمارے سامنے کوئی شرائط نہیں رکھی گئیں اور ہمیں اسلام کی دعوت بھی نہیں دی گئی۔‘‘
قاضی نے اب امیر کی طرف دیکھا کہ تم کیا کہتے ہو؟
فاتح جرنیل نے قاضی کو دیکھا اور یوں گویا ہوا: قاضی کی خیر ہو، لڑائی تو دھوکے کی چالوں پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ ملک بہت بڑا ملک اس کے باشندوں کو حق تعالیٰ نے کفر و شرک سے محفوظ فرمایا ہے اور اسے مسلمانوں کی ملکیت اور وراثت میں دے دیا ہے‘‘۔
قاضی: کیا تم نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام کی دعوت دی تھی یا جزیہ دینے پر آمادہ کیا تھا یا دونوں صورتوں میں انکار پر لڑائی کی دعوت دی تھی؟
سپہ سالار:جی نہیں! ایسا تو نہیں ہوا۔
قاضی: ’’تو گویا آپ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا‘‘۔
اب آگے قاضی کے الفاظ پر غور کریں:
’’رب العالمین نے اس امت کی مدد صرف اس وجہ سے کی ہے کہ اس نے دین کی اتباع کی اور دھوکہ دہی سے اجتناب کیا‘‘۔
’’خدا کی قسم! ہم اپنے گھروں سے جہاد کے لیے نکلے ہیں، ہمارا مقصود زمین پر قبضہ جمانا نہیں ہے‘‘۔
’’نہ ہی حق کے بغیر وہاں حکومت کرنا ہمارا مقصد تھا۔ میں فیصلہ دیتا ہوں کہ مسلم فوج اس ملک سے نکل جائے۔‘‘
’’اس کے اصل باشندوں کو حکومت واپس کریں۔ پھر اس کو دعوت دین دیں، چیلنج دیں اور پھر ان سے لڑائی کا اعلان کریں‘‘۔
اہل سمرقند اور کاہنوں نے اس فیصلے کو سنا، ان کے کانوں اور آنکھوں نے جو سنا اور دیکھا اس پر یقین نہیں آرہا تھا، ہم کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہے۔ قاضی نے حکومت کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ بہت ساروں کو تو پتہ ہی نہ چلا کہ عدالت برخاست ہو چکی ہے۔ قاضی اور امیر روانہ بھی ہو چکے ہیں۔
ہمارا سمرقندی (مسلم) ایلچی بڑی حیرت سے بڑے کاہن کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس کے چہرے کے تاثرات کو خوب غور سے دیکھا۔ ان کے رنگ بدل رہے ہیں۔ وہ گہری سوچ میں مبتلا ہے۔ بڑے کاہن نے اپنے دماغ پر زور دینا شروع کیا۔ اس کی آنکھیں بند ہو گئی ہیں۔ اس نے اپنی سابقہ زندگی پر غور کرنا شروع کیا۔ اپنے عقیدے اور منہج کے بارے میں سوچنے لگا: کتنا ہی عجیب و غریب اس کا عقیدہ ہے۔ اس کا دائرہ کتنا مختصر اور چھوٹا ہے، جو صرف کاہنوں کے درمیان گھومتا ہے؟
اور اب اس کا ذہن دین اسلام کے حوالے سے سوچ رہا ہے۔ اس کا دائرہ کتنا وسیع اور بڑا ہے۔ خیر سے بھرپور، عدل و انصاف کرنے والا دین، یہ دین جس کی سر بلندیوں کو سورج کی شعاعیں، چاند کی روشنی بھی چھونے سے قاصر ہے۔
وہ آنکھیں بند کر کے کتنی ہی دیر بیٹھا رہا، سوچتا رہا، سوچتا رہا۔ اس کا ذہن اور فکر مسلسل بدل رہا ہے۔ میں کب تک اندھیروں میں رہوں گا۔ روشنی تو بڑی واضح ہے۔ یقینا اسلام عدل و انصاف کا دین ہے۔ اس میں چھوٹا بڑا سب برابر ہیں۔ آج عدالت میں سب لوگوں نے دیکھا۔ قاضی کے سامنے کس طرح حاکم سر نگوں ہو کر بیٹھا تھا۔ کیا کبھی ہمارا بادشاہ اس طرح عدالت کے سامنے پیش ہو سکتا ہے۔ وہ ابھی اس غور و فکر میں تھا کہ اسے گھوڑوں کے چلنے کی آوازیں سنائی دیں۔ لوگ بازاروں سے گزر رہے تھے۔ شور برپا تھا۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔ آوازوں کی طرف کان لگائے۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ یہ شور کیسا ہے؟
بتایا گیا کہ قاضی کے فیصلے پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے اور فوجیں واپس جا رہی ہیں۔ ہاں وہ عظیم فوج جس کے سامنے یثرب سے لے کر سمر قند تک کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔ جس نے قیصر و کسریٰ اور خاقان کی قوتوں کو پاش پاش کر رکھ دیا۔ جو طاقت بھی اس کے راستے میں آئی، اسے وہ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئے۔ مگر آج وہی فوج ایک کمزور سے جسم کے مالک قاضی کے سامنے سرنڈر ہوگئی ہے۔ آج صبح کی بات ہے، ایک شخص جس کے ساتھ صرف ایک غلام تھا۔ اس نے مقدمہ کی سماعت کی۔ چند منٹوں کی سماعت۔ عدالت میں دو طرفہ بیانات سنے۔ سپہ سالار کا اقرار اور پھر دو تین فقروں پر مشتمل فیصلہ۔ مسلمانوں کے کمانڈر کو عدالت نے شہر خالی کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت کے حکم کے مطابق وہ شہر سے نکلنے کے بعد تیاری کے لیے باقاعدہ چیلنج دیں گے اور پھر دوبارہ لڑائی کریں گے۔
کاہن اپنے ساتھیوں کی باتیں سنتا جا رہا ہے اور پھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ کیا اہل سمرقند اس سیل رواں کے سامنے ڈٹ سکیں گے؟ کیا ان کے پاس مقابلہ کی قوت ہے؟ دنیا کے تمام ممالک ان کے سامنے جھک گئے۔ کیا ہمارا باطل دین اس حق کے سامنے ٹھہر سکے گا۔ کیا وہ نور اسلام کا مقابلہ کر پائے گا۔
نہیں ہر گز نہیں، رب کا فیصلہ آچکا ہے کہ ظلم و ستم کی رات کو ختم ہونا ہے۔ دنیا پر نئی فجر طلوع ہو رہی ہے۔ اس نور کے مقابلے میں کوئی بھی نہیں ٹھہر سکتا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہا: تمہاری کیا رائے ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا ہم ان کا مقابلہ کر سکیں گے؟ ارے جواب کیوں نہیں دیتے۔ اس نے انہیں پکارا۔ سمرقندی مسلم ایلچی زور سے کہنے لگا: ساتھیو! میرا فیصلہ اور مشورہ سنتے ہو۔ کان اس کی طرف لگ گئے۔ اس نے کہا:
’’میں تو اس بات کی گواہی دے چکا کہ خدا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدؐ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘
اور اب بڑے کاہن کی باری تھی، وہ بولا: اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمدؐ اس کے پیغمبر اور رسول ہیں۔
پھر سمرقند کی گلیاں اور چوک تکبیر کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔ لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم مجاہدین کے گھوڑوں کی باگیں پکڑ لی ہیں۔ اس ملک سے واپس مت جائو، ہمیں اسلامی عدل و انصاف کی ضرورت ہے۔ ہم نے اپنوں کا راج دیکھا ہے، ان کے ظلم و ستم سے ہم خوب واقف ہیں۔ آپ لوگ واپس لوٹ آئیں۔ ہم سب نے بھی تمہارے دین کو قبول کر لیا ہے۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد مسلمان فوج واپس ایک اسلامی ملک میں ان سے لڑنے کے لیے بلکہ ان کی حفاظت کے لیے داخل ہو رہی تھی۔
’’کوئی حاکم و محکوم باقی نہیں رہا، کوئی غالب اور مغلوب نہیں رہا، سب کے سب خدا کے لیے بھائی بھائی بن گئے ہیں۔‘‘
کسی عربی کو کسی عجمی پر فضیلت نہیں۔ کوئی طاقتور کمزور پر بھاری نہیں۔ ہاں فرق کرنے والی چیز تقویٰ ہے۔ لوگوں کے درمیان اصلاح کرنا اور خیر کے کاموں میں سبقت حاصل کرنے والے کو فضیلت ضرور حاصل ہے۔
قارئین کرام! اس طرح سمر قند کی سرزمین میں اسلام کی دولت داخل ہو گئی اور اس میں سے کبھی بھی یہ دولت نہیں نکل سکی۔
(قارئین کرام! اس مضمون کی تیاری میں شیخ علی طنطاوی کی کتاب ’’رجال من التاریخ‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے۔)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More