افراتفری اور نفسا نفسی کے اس پر آشوب دور میں اب بھی ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں، جن کو دیکھتے ہوئے دم توڑتی انسانیت پر اعتماد بحال ہونے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لاتعداد ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو آج بھی انسانیت پر ناصرف یقین کامل رکھتے ہیں بلکہ انسانیت کی خدمت کیلئے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں۔ ایسے لوگ ہی دراصل ہمارے معاشرے کے ہیرو ہیں اور ہمارے معاشرے کا حسن ایسے ہی بے لوث لوگوں کے وجود سے قائم و دائم ہے۔
گزشتہ دنوں اپنے ایک قریبی عزیز کو جو مجھ سے ملنے میرے گھر تشریف لائے ہوئے تھے، اچانک سینے میں درد محسوس ہونے لگا۔ کچھ دیر تو وہ یہ درد برداشت کرتے رہے کہ شاید ٹھیک ہو جائے لیکن جب درد کی شدت میں کوئی کمی نہ ہوئی اور انہیں ٹھنڈے پسینے آنے لگے تو میں نے فوری طور پر انہیں لے کر ٹبہ انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز میں آیا اور ایمرجنسی میں انہیں دکھایا۔ اسپتال کا تربیت یافتہ اور ٹرینڈ اسٹاف فوری طور پر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ ان کا بلڈ پریشر چیک کیا گیا تو وہ خاصا بڑھا ہوا تھا۔ چنانچہ ڈیوٹی پر موجود ٹریننگ ہیڈ نے مجھے بتایا کہ ان کا بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے، جبکہ ان کے سینے کے بائیں جانب درد بھی محسوس ہورہا ہے۔ ہم ان کا تفصیلی معائنہ کریں گے، جس میں ان کا ECG ہوگا، اگر ECG نارمل آیا تو انہیں کچھ دیر ایمرجنسی میں رکھ کر واپس گھر بھیج دیا جائے گا، اگر ان کا ECG خراب آیا تو پھر ان کے مزید کچھ ٹیسٹ کرنا پڑیں گے، تاکہ ان کے مرض کی درست تشخیص کی جاسکے۔
مجھے کہا گیا کہ آپ سامنے والے کاؤنٹر پر جاکر ان کی فائل بنوالیں۔ میں کاؤنٹر پر پہنچا، وہاں موجود خوش اخلاق شخص نے مسکرا کر میرا استقبال کیا اور مریض سے متعلق کچھ ضروری باتیں دریافت کیں اور چند منٹ بعد ایک فائل میرے حوالے کر دی اور مجھ سے چھ ہزار روپے طلب کئے، جو میں نے ادا کردیئے۔ کاؤنٹر چھوڑنے سے قبل اس شخص نے مجھے مزید بتایا کہ اگر آپ کے مریض کا ECG صحیح آجاتا ہے اور ڈاکٹر انہیں فوری طور پر ریلیز کردیتے ہیں تو میں آپ کو تین ہزار روپے واپس کروں گا، لیکن اگر ECG خراب آنے کی صورت میں مزید ٹیسٹ کئے گئے تو آپ کو مزید رقم جمع کروانا ہوگی۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور فائل لے کر واپس ایمرجنسی میں آیا تو میرے عزیز کو اندر منتقل کیا جا چکا تھا، میں نے فائل نرسنگ اسٹاف کے حوالے کی اور ویٹنگ چیئر پر بیٹھ گیا۔
میرے سامنے ہی آٹھ عدد اسپیشل قسم کی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں، جن پر کچھ مریضوں کو بٹھا کر ان کو بلڈ پریشر آلات لگائے گئے تھے، جس کے ذریعے ان کا بلڈ پریشر مانیٹر کیا جا رہا تھا۔ سب سے آخری والی کرسی پر ایک صاحب آنکھیں بند کئے لیٹے ہوئے تھے، جبکہ ان کے نزدیک ہی ان کا نوجوان بیٹا کھڑا ان کا حوصلہ بلند کر رہا تھا۔ قریباً دس منٹ کے بعد ایک شخص ایک با پردہ عورت کے ساتھ داخل ہوا اور بتایا کہ اس کی اہلیہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سر میں سخت درد ہو رہا ہے، جبکہ کندھوں میں بھی سخت درد ہے۔ نرسنگ اسٹاف نے اس خاتون کو فوری طور پر اسپیشل کرسی پر منتقل کیا اور ان کا بلڈ پریشر چیک کرنے کیلئے مشین ان سے منسلک کی گئی۔ نرسنگ اسٹاف نے انہیں بھی ایسی ہی باتیں بتائیں جیسا کہ مجھے بتائی گئی تھیں۔ اس شخص کو بھی کہا گیا کہ وہ اپنی اہلیہ کی فائل بنوائے۔ چنانچہ وہ شخص کاؤنٹر کی جانب بڑھ گیا۔
اس شخص کی اہلیہ مسلسل درد سے کراہ رہی تھی، جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ اس کی طبیعت خاصی خراب ہے۔ چند منٹ بعد وہ شخص واپس آیا، اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، اس نے آتے ہی نرسنگ اسٹاف سے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کا علاج نہیں کرانا چاہتا، کیونکہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ علاج کا بل ادا کر سکے۔ نرسنگ اسٹاف نے حیران ہوکر اسے بتایا کہ اس کی اہلیہ کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھا ہوا ہے اور اگر انہیں فوری طور پر علاج فراہم نہ کیا گیا تو ان کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس شخص نے کہا کہ جب میرے پاس پیسے نہیں تو میں علاج کس طرح کروا سکتا ہوں اور اصرار کرنے لگا کہ وہ اپنی اہلیہ کو واپس لے جانا چاہتا ہے۔
صورتحال بڑی عجیب سی ہو چکی تھی، کیونکہ وہ شخص کسی طرح ماننے پر تیار نہ تھا اور مسلسل اصرار کر رہا تھا کہ وہ اپنی اہلیہ کو واپس لے جانا چاہتا ہے اور پھر اچانک وہ ہوا، جس نے سب کو حیران کرکے رکھ دیا۔ مریضوں کی کرسی پر اپنے والد کی ہمت بڑھانے والا نوجوان آگے بڑھا اور اس شخص سے کہنے لگا: جناب آپ کی اہلیہ کی حالت اچھی نہیں ہے، انہیں علاج کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ان کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ آپ علاج کے پیسوں کی قطعاً فکر نہ کریں، آپ اپنی اہلیہ کے علاج اور ٹیسٹ ہونے دیں، تمام اخراجات میں ادا کردوں گا، وہ شخص ڈبل مائنڈڈ ہوگیا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرے، علاج کے لئے ہاں کرے یا پھر اپنی اہلیہ کو واپس لے جائے۔ نوجوان ایک بار پھر سے بولا: جناب آپ تاخیر نہ کریں، ورنہ سخت نقصان ہوسکتا ہے، آپ پیسوں کی فکر نہ کریں، میں آپ کو اپنا موبائل فون نمبر دے دیتا ہوں، جب آپ کے پاس پیسے آجائیں، آپ مجھے فون پر بتا دیجئے گا، میں پیسے وصول کرلوں گا، لیکن خدا کے لئے اس وقت تاخیر نہ کریں۔
اس شخص کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نوجوان نے اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے تسلی دی اور کہا ہمت کریں، خدا نے چاہا تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، آپ کی اہلیہ بھی صحت مند ہو جائیں گی۔ میرے پیسوں کی قطعاً فکر نہ کریں، یہ آپ کیلئے قرض حسنہ ہے، جب بھی آپ کے پاس پیسے ہو جائیں لوٹا دیجئے گا اور اگر نہ ہوں تو کوئی فکر نہ کریں، مجھے ان پیسوں کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد وہ نوجوان اس شخص کو لے کر کاؤنٹر پر گیا، کاؤنٹر پر پیسے جمع کروائے، کتنے پیسے جمع کروائے، مجھے اس کا علم نہیں اور چند منٹ کے بعد وہ شخص ایک فائل ہاتھ میں اٹھائے واپس آیا اور نوجوان ایک بار پھر سے اپنے والد کی ہمت بڑھا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہ تھے، بلکہ وہ ایسا لاتعلق تھا جیسے اسے کچھ پتہ ہی نہ ہو۔
نرسنگ اسٹاف اس شخص کی اہلیہ کو لے کر وارڈ کے اندر داخل ہوگئے اور وہ شخص بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ ساتھ وارڈ میں داخل ہوگیا۔ میں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا رہا، جب میرے عزیز کو ڈاکٹروں نے ECG درست آنے پر گھر لے جانے کی اجازت دے دی، میں کاؤنٹر پر گیا تو مجھے تین ہزار کی رقم واپس کردی گئی، میں نے رقم لی اور واپس ایمرجنسی میں آیا اور گارڈ سے وارڈ میں داخل ہونے کی اجازت مانگی، لیکن اس نے منع کر دیا۔ نرسنگ اسٹاف نے مجھ سے پوچھا آپ کیوں اندر جانا چاہتے ہیں، میں نے کہا اچھا اگر مجھے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے تو برائے مہربانی اس شخص کو چند منٹ کیلئے بلوا دیں، جو ابھی اپنی اہلیہ کو لے کر اندر گیا ہے۔ نرسنگ اسٹاف نے اس شخص کو باہر بلایا تو میں نے کاؤنٹر سے واپس ملنے والی رقم اس شخص کے حوالے کی، وہ شخص حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگا تو میں نے اس سے کہا بڑے بھائی اتنے حیران اور پریشان نہ ہو، یہ بھی تمہارے لئے قرض حسنہ ہے۔
واپس آتے ہوئے میں نے اس نوجوان سے مصافحہ کیا اور اس کے جذبے کی تعریف کی۔ اس نوجوان نے کہا جناب پیسہ ہوتا کس لئے ہے؟ انسان ضرورت کیلئے پیسہ رکھتا ہے، کیا ہوا جو میری ضرورت کے بجائے اس شخص کی ضرورت پوری ہوگئی، مجھے خوشی ہے کہ اس شخص نے میری بات مان لی۔ خدا اس کی اہلیہ کو صحت اور زندگی دے، اگر اس کی اہلیہ کو خدا تعالیٰ صحت عطا کر دیتا ہے تو سمجھ لوں گا سارا پیسہ درست سمت میں خرچ ہوا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے اس نوجوان کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ وہ خدا کا نیک بندہ تھا، نوجوانی میں نیکی کے جس راستے کا اس نے انتخاب کیا تھا، بلاشبہ وہ جنت کا راستہ ہے۔ اس واقعہ نے مجھے بے حد متاثر کیا اور مجھے ہی کیا، اس وقت ایمرجنسی میں جتنے بھی افراد تھے، وہ اس نوجوان کے جذبے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ حقیقت ہے ایسے ہی نیک لوگوں کے دم سے یہ دنیا چل رہی ہے۔
Prev Post
Next Post