عباس ثاقب
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے نوجوانی کے امنگوں بھرے دور میں اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ صرف اس لئے کہ وطن عزیز پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ جمال صاحب کراچی کے قدیم رہائشی ہیں اور ان دنوں گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں بصد اصرار اس بات پر آمادہ ہوئے کہ اپنی زندگی کے تہلکہ خیز گوشوں سے پردہ اٹھائیں۔ ان کا اصل نام کچھ اور ہے۔ بعض نا گزیر اسباب کی بنا پر انہیں ’’جمال‘‘ کا فرضی نام دیا گیا ہے۔ اس کہانی کو ڈرامائی شکل دینے کیلئے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی۔ کیونکہ یہ حقیقی ایڈوینچر کسی سنسنی خیز ناول سے زیادہ دلچسپ ہے۔ جمال صاحب کی کہانی ان لوگوں کیلئے دعوتِ فکر ہے، جنہیں یہ ملک بغیر کسی جد و جہد اور محنت کے ملا اور انہوں نے اس کی قدر کرنے کے بجائے اسی سے شکایات شروع کر دیں۔ امید ہے کہ قسط وار پیش کی جانے والی یہ کہانی ’’امت‘‘ کے خوش نظر قارئین کی پذیرائی حاصل کرے گی۔ (ادارہ)
بشن دیپ نے میری بات سن کر اداس چہرے کے ساتھ ہاں میں سر ہلایا اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اسے خاموش پاکر میں نے بھی بات وہیں چھوڑ دی۔ پنجاب میل تیزی سے اور رات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ بشن دیپ اب سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے اونگھ رہا تھا۔ اس کی بیوی تو پہلے ہی منہ لپیٹ کر سو چکی تھی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر میں بھی بیٹھے بیٹھے سونے کی کوشش کرنے لگا اور جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
مجھے بشن دیپ نے دھیرے سے ہلاکر جگایا تو صبح کا اجالا بکھر چکا تھا۔ ’’بھائی بہادر، ریل اٹارسی اسٹیشن پہنچنے والی ہے۔ وہاں یہ آٹھ دس منٹ رکے گی۔ دونوں بھائی اتر کر ناشتہ لے آتے ہیں۔ اس کے بعد تو کہیں بھوپال پہنچ کر ہی بڑا اسٹاپ کرے گی‘‘۔
میں نے اس کی تائید کی اور اٹارسی ریلوے اسٹیشن پر پنجاب میل تھمتے ہی ہم دونوں جلدی جلدی اچھے ناشتے کی جستجو میں آگے بڑھنے لگے۔ پلیٹ فارم پر ذرا آگے ہمیں گرما گرم حلوا پوری اور کچوریاں مل گئیں۔ واپسی پر ہم چائے والے کو ساتھ لیتے آئے۔ امرتا نے سب گھر والوں کو جگا دیا تھا۔ لہٰذا مل کر ناشتہ ہوا اور گرما گرم چائے پی گئی۔ اس دوران ٹرین چل پڑی تھی۔ لگ بھگ تین گھنٹے بعد پنجاب میل بھوپال ریلوے اسٹیشن پر ٹھہری۔ بشن دیپ نیند پوری کرنے کے لیے برتھ پر جا چکا تھا۔ چنانچہ میں تنہا پلیٹ فارم پر اترا اور ایک نلکے سے اچھی طرح منہ دھویا اور اخبار والے سے ٹائمز آف انڈیا خرید کر اپنے ڈبے میں واپس آگیا۔ بشن دیپ کے علاوہ سردار خاندان کے لگ بھگ تمام افراد جاگ چکے تھے۔ بزرگ سردار میرے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر خوش ہوگئے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ بظاہر دیہاتی نظر آنے والا وہ شخص اتنا پڑھا لکھا ہے کہ انگریزی اخبار کا مطالعہ کر سکے۔
ان کا اشتیاق دیکھ کر میں نے مرکزی صفحات ان کے حوالے کر دیئے اور اندر کے صفحات میں مقامی خبریں پڑھتا رہا۔ براہم دیپ سنگھ نے شاید تمام خبریں چاٹنے کے بعد مرکزی صفحے میرے حوالے کیے۔ زیادہ تر خبریں مقامی سیاست پر مبنی تھیں۔ مجھے ایک قدرے غیر اہم انداز میں شائع کردہ خبر میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی۔ حزبِ مخالف کی جماعت بھارتیہ جن سنگھ کے صدر اور پارلیمنٹ پتمبر داس نے وزیر اعظم نہرو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ یومِ جمہوریہ پر اپنی تقریر میں انہوں نے چین کی طرف سے لداخ اور اتر پردیش وغیرہ میں درجنوں بار فضائی خلاف ورزیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا اور نہ ہی چینی صدر چواین لائی کی طرف سے سرحدی تنازعات پر کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکار پر کوئی طاقت ور ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ پتمبر داس نے اپنے بیان میں خطرہ ظاہر کیا تھا کہ ہندوستانی حکومت کے بزدلانہ موقف کی وجہ سے چین آگے بڑھ کر تبت کی طرح ہندوستان کے مزید سرحدی علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے۔
میں ہندوستان اور چین کے درمیان چھوٹی بڑی سرحدی جھڑپوں کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات رکھتا تھا۔ لیکن اس خبر سے مجھے اندازہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری کے تعلقات تیزی سے کسی جنگی معرکے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
میں نے اخبار سے توجہ ہٹائی تو براہم دیپ سنگھ کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ میں نے موقع مناسب سمجھتے ہوئے بشن دیپ کی سنائی ہوئی کہانی ان کے سامنے پھینک دی۔ ’’سردار جی، کیا واقعی موجودہ ہندوستانی حکومت سکھ قوم کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے؟‘‘۔
میری بات سن کر وہ چند لمحے کے لیے خاموش ہوگئے۔ پھر دکھی لہجے میں کہا ’’پُتر بشن دیپ جیسے جوانوں کو سرکار سے جو شکایات ہیں، وہ اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن ان شکایات کی وجہ سے الگ دیس کے مطالبے سے میں متفق نہیں ہوں‘‘۔
انہوں نے اپنے خیالات مزید مرتب کرنے کے لیے توقف کیا۔ ’’بدقسمتی یہ ہے کہ نہرو سرکار اپنے اقدامات سے میرے جیسے ایکتا کے حمایتیوں کا موقف کمزور کرتی جا رہی ہے اور ہمیں الگ دیس کی مانگ کرنے والوں کے سوالات کا جواب دینا ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ بشن دیپ اور اس کے ساتھیوں کے اس دعوے کو تو میں بھی ٹھیک مانتا ہوں کہ پنڈت نہرو اور مہاتما جی (گاندھی) نے ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے سکھوں سے جو وعدے کیے تھے، نیا ملک بننے کے بعد ان سب کو ایک ایک کرکے جھٹلاتے گئے ہیں‘‘۔
میں نے پوچھا۔ ’’وہ وعدے کیا تھے سردار جی؟‘‘۔
انہوں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’نہرو نے سکھوں کے لیے پنجاب میں خود مختار ریاست کا وعدہ کیا اور گاندھی جی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر کانگریس اپنے وعدے پورے نہ کرے تو اپنی کرپان سے میری گردن اڑا دینا‘‘۔
میں نے جلدی سے کہا۔ ’’مگر انہیں کسی سکھ نے تو قتل نہیں کیا تھا ناں؟‘‘۔
سردار جی نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’وہ تو ایک اور ہی چکر میں مارے گئے۔ مگر نہرو نے اب تک سکھوں کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا۔ اب تو وہ کہتے ہیں کہ اب وقت بدل چکا ہے۔ اگر تم آزاد رہنا چاہتے تھے تو برٹش راج سے الگ ملک کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ ایک اور جگہ نہرو جی نے تو سکھوں کو سرکش قوم اور قانون پسند ہندوؤں کے لیے خطرہ قرار دے ڈالا تھا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭