برق مسلمانوں پر کیوں گرتی ہے؟
لیفٹیننٹ کرنل (ر) عادل اختر
یہ سوچنے کی بات ہے کہ برق ہمیشہ مسلمانوں پر کیوں گرتی ہے۔ گزشتہ دنوں مقامی اخبارات میں یہ خبر چھپی کہ یمن میں جہاں خانہ جنگی ہو رہی ہے، پچاس لاکھ بچے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ بھوک اور قحط سے یمن کی اگلی نسل مکمل طور پر ہلاک ہو جائے گی۔ یمن میں حوثی نام کا قبیلہ رہتا ہے، جس کی حکومت سے گزشتہ تین سال سے لڑائی چل رہی ہے۔ اس لڑائی میں ضروری چیزیں خوراک، پانی اور دوائیں، بالکل غائب ہوگئی ہیں۔ بچے بچاؤ، نامی تنظیم کے جرمن سربراہ شمڈٹ کا کہنا ہے کہ اگر جنگ میں کئی نسلیں ماری جائیں گی۔ قحط، برستے ہوئے بم، بیماریاں کسی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ لڑائی میں خوراک اندر آنے کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں۔ خوراک کی نایابی سے لاکھوں لوگ مرنے کے منتظر ہیں۔
برطانوی شہری ڈیوڈ ملی بینڈ بھی ایک انسانی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بڑے مشکل حالات میں یمن کا دورہ کیا اور کہا کہ ہر طرف چلتے پھرتے ڈھانچے نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج یہ ہے کہ فوراً جنگ بندی ہونی چاہئے۔ خوراک، دواؤں اور ضروری اشیا کی سپلائی شروع کی جائے۔ اسپتال زخمیوں اور نیم مردہ مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔ خوراک اگر کہیں کہیں دستیاب ہے تو بہت مہنگی ہے۔
یہ تو ہے مختصر حال یمن کا۔ جہاں موت، خانہ جنگی، قحط، بیماریاں اور بے یقینی کی شکل میں پوری آبادی پر مسلط ہے۔ اگر کوئی پارٹی جنگ جیت جائے تو فتح کے تازیانے بجانے کے لئے بھی کوئی زندہ نہ ہوگا۔
انسانی فطرت میں شامل ضد، غصہ، لالچ، خود غرضی، آخرکار اس کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی، اپنے وطن میں ڈیم بنانے پر متفق ہو چکے ہیں۔ خشک سالی، ویرانی، قحط پاکستان کی فضاؤں پر منڈ لارہے
ہیں۔ شکر ہے کہ ہمیں احساس ہو گیا ہے۔ قوم دیوانہ وار چندہ دے رہی ہے۔ خدا انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔ ایک اور ملک شام ہے۔ جہاں لڑائی یا خانہ جنگی چل رہی ہے۔ اس خانہ جنگی میں اب تک لاکھوں افراد مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ شام چھوڑ کر یورپی ممالک فرار ہو چکے ہیں۔ لاکھوں اپنے ہی وطن میں دربدی کررہے ہیں۔ بقیہ آبادی خوف اور بے یقینی کا شکار ہے۔ شام کا ایک شہر ادلب (IDLIB) خاص طور پر خانہ جنگی کا شکار ہے۔ حال ہی میں روس اور ترکی کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوا ہے، جس کی رو سے ادلب میں جنگ بند ہو جائے گی۔ ہزاروں شہریوں نے اپنے شہر واپس آنا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ دنوں میں ادلب پر اتنی شدید بمباری ہوئی کہ سارا شہر خالی ہو گیا۔ جائے امان صرف شمال میں ترکی کا بارڈر تھا۔ ہزاروں لوگ وہاں جا بسے۔ کیمپوں میں بمباری ختم ہوئی تو چالیس پچاس ہزار لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو آگئے ہیں۔ جلد ہی ادلب کے اطراف میں روس اور ترکی کے فوجی سپاہی تعینات کردیئے جائیں گے اور علاقہ کو ’’غیر فوجی‘‘ قرار دیا جائے گا۔ ادلب میں زیادہ لوگ صدر بشار کے خلاف ہیں اور کئی اسلامی تحریکوں کا مرکز ہے۔ ادلب آباد ہو یا برباد، جنگ کا خطرہ ٹلتا دکھائی نہیں دیتا۔اسی طرح ایک بہت درد ناک صورتحال کشمیر اور برما میں ہے۔ جہاں مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹایا جا رہا ہے۔ خدا معلوم وہ کون لوگ تھے، جن کی دعاؤں سے ہمارا وطن ابھی تک محفوظ ہے۔ عوام تو اب بھی دیوانہ وار شمع وطن پر نثار ہیں۔ تھوڑے نااہل اور خود غرض لوگ ہیں، جنہوں نے ملک کو لوٹ لوٹ کر کنگال کردیا ہے۔خدا کی اور پاکستان کے عوام کی لعنت ہو ایسے افراد پر، جو پاکستانی عوام کا خون پی رہے، یعنی خزانہ لوٹ رہے ہیں۔ ان میں سے سینکڑوں لٹیروں کے نام روز میڈیا پر آرہے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں انصاف اور تعلیم کا بول بالا ہو تو یہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں شمار ہو۔ خدا پاکستان کا پرچم فراز کرے۔ آمین۔ ٭
٭٭٭٭٭