گزشتہ برس علی گڑھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے والے 26 سالہ منان وانی نے اچانک قلم چھوڑ کر بندوق تھام لی۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ضلع کپوارہ کی حسین وادی لولاب سے تعلق رکھنے والے عبد المنان اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد آرام و آسائش کی زندگی کو لات مار کر جہاد کے کٹھن راستے پر چل پڑیں گے۔ کپوارہ وہ ضلع ہے، جہاں سے لائن آف کنٹرول گزرتی ہے، اس کے جنگل، میدان اور کوہ ودمن بھارتی فوجیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
منان وانی کا خاندان ضلع کپوارہ کی وادیٔ لولاب کے سبزہ زاروں سے گھرے قصبے ٹکی پورہ میں مقیم ہے۔ ان کے والد بشیر احمد وانی لیکچرر تھے اور گھر کے مالی حالات بہت اچھے تھے۔ اسی لیے منان وانی کو عام اسکول کے بجائے مانس بل کے فوجی اسکول (Sinik School) بھیجا گیا۔ وادیٔ کشمیر میں یہ واحد فوجی اسکول ہے اور تعلیمی معیار کے حوالے سے پورے کشمیر میں ممتاز ہے۔ یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کشمیری بچوں کو بھارت کا وفادار شہری بننا بھی سکھایا جاتا ہے۔ منان وانی نے اس اسکول میں کئی اعزاز اور ایوارڈ حاصل کیے اور یہیں سے امتیازی پوزیشن لے کر انٹر پاس کیا۔ سری نگر یونیورسٹی سے جیالوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے جیالوجی میں ایم فل کرنے کے بعد انہوں نے وادیٔ لولاب کی ارضیاتی خصوصیات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ ’’ڈاکٹر منان وانی‘‘ کہلائے۔
کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ ایک دن ڈاکٹر منان وانی اچانک بندوق اُٹھا کر جنگل کی راہ لیں گے اور ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کریں گے کہ آج کے بعد مجھے حزب المجاہدین میں شامل ایک سر بکف مجاہد سمجھا جائے، آج سے بھارت اور اس کی قابض افواج کے خلاف میری کھلی جنگ ہے۔
ڈاکٹر منان وانی کی زندگی درس گاہوں میں گزری تھی، انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن ہتھیار اٹھا کر منظم فوج کا مقابلہ کریں گے۔ تاہم کسی باقاعدہ عسکری تربیت کے بغیر، اپنے دانش ورانہ قد و قامت کی وجہ سے جلد ہی حزب میں کمانڈر بنا دیئے گئے۔ وہ سائنس کے ایک لائق طالب علم تھے، لیکن ان کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ دینیات، تاریخ اور سیاسی مزاحمت سے متعلق ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے والد نے ایک انٹرویو میں بتایا:
’’وہ سائنس کے اسکالر سے زیادہ ایک عالم دین تھے۔‘‘ چند سال قبل بھوپال یونیورسٹی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ’’پانی، ماحولیات، انرجی اور سوسائٹی‘‘ کے موضوع پر بہترین مقالہ پیش کرنے پر انہیں اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ ان کے کئی مضامین اخبارات و جرائد میں شائع ہوئے۔ ان کی تحریروں کی اشاعت پر مقبوضہ کشمیر کی مقامی نیوز ایجنسی KNS کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا۔ علی گڑھ کی ویب سائٹ سے منان وانی کے مضامین اب ہٹا دیئے گئے ہیں۔
جہاد میں عملی شرکت کے بعد بھی منان وانی اپنے قلم سے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف مضبوط دلائل سے کشمیر کی جدوجہد آزادی کا مقدمہ پیش کرتے رہے۔ مقبوضہ کشمیر کے تعلیمی اداروں کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی نگرانی کرنے کے لیے جاسوس مامور کیے گئے ہیں، طلبہ کے اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے اور ان کے پیچھے جاسوس لگے ہوئے ہیں، پوری آبادی محصور ہے، سرکاری ملازمین کی زباں بندی کے لیے کالے قوانین بنائے گئے ہیں، تاکہ وہ حکومت کی پالیسیوں کی تنقید نہ کر سکیں، اس ساری صورت حال کا وہ لوگ کیا جواب دیں گے، جو جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ سمجھتے ہیں۔‘‘
منان وانی کے ایک پڑوسی اور دوست نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر ’’روزنامہ کشمیر عظمیٰ‘‘ کو بتایا:
’’منان وانی اس گھٹن کو محسوس کررہے تھے، جو ہم سب کا مقدر بن گئی ہے۔ انہوں نے لکھنا چاہا، لیکن وہاں بھی قدغنیں تھیں۔ ان کا مسلح ہونا یہ دکھا رہا ہے کہ قلم روکو گے تو وہی قلم بندوق بن جائے گا‘‘۔
3 جنوری سے 12 اکتوبر 2018ء تک منان وانی کو میدان جہاد میں 9 ماہ اور 9 دن گزارنے کی مہلت ملی۔ بھارتی فوج کو اپنے خفیہ ادارے کی مصدقہ اطلاع ملی کہ منان وانی ماور ہندوارہ کے گھنے جنگل میں شاٹھ گنڈ بال نامی مقام پر موجود ہیں۔ فوجی دستوں نے رات ڈھائی بجے اس مقام کا محاصرہ کر کے گائوں کی چاروں طرف سے ناکہ بندی کر لی۔ اگلی صبح جھڑپ شروع ہوئی، جس میں کمانڈر منان وانی اپنے ایک ساتھی عاشق حسین سمیت شہید ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ نے کشمیر میں انٹرنیٹ سروس، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے بند کر دیئے۔
منان وانی کی لاش جلوس کی صورت میں آبائی علاقے ٹکی پورہ پہنچائی گئی، جبکہ عاشق حسین شہید کی لاش ان کے گائوں لنگیٹ پہنچائی گئی۔ منان وانی کی لاش جیسے ہی گھر پہنچی، بھارتی فوج نے ٹکی پورہ جانے والے تمام راستے سیل کردیئے، جگہ جگہ پر ناکے لگا دیئے گئے، سڑکیں بند کردی گئیں، اس کے باوجود ہزاروں لوگ ٹکی پورہ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ نماز مغرب کے بعد منان وانی کی نماز جنازہ ان کے آبائی گھر کے پبلک اسکول کے صحن میں ادا کی گئی، جس میں بیس ہزار سے زیادہ افراد شریک ہوئے اور بعد میں انہیں مزار شہداء میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
یہ ماننا ہو گا کہ منان وانی کی شہادت کے بعد مقبوضہ کشمیر میں وہ کچھ نہیں ہوا، جو دو سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد ہوا تھا۔ برہان کی شہادت کے بعد احتجاج، مظاہروں اور مسلح مزاحمت کی زبردست تحریک چھڑ گئی تھی۔ اگرچہ منان وانی کی شہادت کے بعد بھی شدید احتجاج ہوا ہے، مظاہرین پر گولیاں اور گیس کے شیل برسائے گئے ہیں، سارے کشمیر میں کئی روز سے ہڑتال ہے، مگر حالات یقیناً مختلف ہیں۔ علاقے میں ہر درخت اور پتھر کے پیچھے فوجی موجود ہے، اسی لیے منان کو شہید کرنے سے پہلے بھارتی فوج سارے میڈیا کو یہ ڈرامہ دیکھنے کی دعوت دی۔ دوسری طرف نام نہاد مقامی انتخابات کی وجہ سے پورا کشمیر بند تھا اور بھارتی فوج کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔
گزشتہ تیس برس سے مقبوضہ خطے کے شہر، گائوں،گلیاں اور جنگل فوجی چھائونیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔ تاہم منان کی شہادت حکمرانوں کے لیے برہان کی شہادت کی طرح ہی پریشان کن ہے۔ سینئر فوجی افسر بھی کہہ رہے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بغاوت کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ خفیہ پولیس کے ایک بڑے افسر نے کہا: ’’برہان کے جانے سے سینکڑوں برہان پیدا ہو گئے تھے، منان وانی کی ہلاکت سے ڈر ہے یونیورسٹی اور کالج کے ہزاروں نوجوان جہادی بن جائیں گے۔ منان کی شخصیت اور اس کا نصابی ریکارڈ تعلیمی اداروں میں بغاوت کے بیچ بوئے گا، جو ہمارے لیے تشویش کی بات ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ میدان جہاد میں کم پڑھے لکھے یا غیر تعلیم یافتہ نوجوان نہ ہونے کے برابر ہیں، شروع دن سے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہی میدان جہاد میں قدم رکھتے آئے ہیں۔1990 ء میں جن لوگوں نے قلم چھوڑ کر بندوق اٹھائی، ان میں تین ایم اے کرنے والے شمس الحق جیسے لوگ پیش پیش تھے، شمس الحق، مقبول علائی، اشفاق مجید وانی، افضل گورو اور سینکڑوں دوسرے شہداء اور مجاہدین میں کوئی بھی ان پڑھ نہیں تھا۔ حال ہی میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے بی ٹیک کے طالب علم عیسیٰ فاضلی اور تحریک حریت کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی کے بیٹے جنید اشرف صحرائی ایم بی اے کرنے کے بعد تحریک آزادی کے مجاہدوں میں شامل ہوئے۔ بھارتی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق دو سال قبل برہان وانی کی شہادت کے بعد سے اب تک 600 سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان اور اسکالرز مسلح ہوکر بھارتی فورسز کے خلاف برسرپیکار ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے واضح الفاظ میں اعتراف کیا: ’’اب کشمیریوں کو پاکستان کی ضرورت نہیں، وہ یونیورسٹی اور کالج سے نکلتے ہیں اور پولیس اور فوج کے اہل کاروں کی بندوق چھین کر جنگل میں پناہ لے لیتے ہیں اور فوج پر حملے کرنے لگتے ہیں۔‘‘
نوجوانوں کو میدان جہاد میں اتارنے کا اصل سبب بھارت کی سفاکانہ پالیسیاں ہیں، جیسا کہ منان وانی نے جون2018ء میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا: ’’جب قابض اور غاصب دشمن غیر مہذب اور وحشی ہو، اس کا اجتماعی ضمیر خون آ شام ہو، اس کی اخلاقیات دھوکہ دہی اور فریب پر مبنی ہوں، اس کی ذہنیت استعماری اور توسیع سندانہ ہو اور وہ بندوق کی نالی سے سوچتاہو، تو ایسے میں پرامن مذاکرات پرعمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ مذاکرات سے پہلے ضروری ہے کہ فرعون صفت دشمن کا گھمنڈ توڑا اور کچلا جائے۔‘‘ ٭
٭٭٭٭٭