موت کے سفر سے واپسی

0

مارٹی اپنے سانس قابو میں کرنے لگا، تاکہ موت کے سفر کی داستان جاری رکھے، اس کے بعد کہنے لگا:
’’ہم گہرے پانی میں غوطے لگانے لگے، تاکہ اپنی لائف جیکٹس پہن لیں کہ وہ ہمیں ڈوبنے سے بچا لیں۔ تو ہر ایک نے اپنی جیکٹ پہن لی اور اس وقت سب کے لیے الٹی ہوئی کشتی کو مضبوطی سے تھامنا ممکن ہو گیا۔ جس وقت ہوائیں کشتی کو ایک محفوظ مقام سے قریب کر رہی تھیں، جس میں ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ کیونکہ وہ جگہ ایک سوراخ نما گھاٹی کی طرح تھی اور اس وقت گھڑی نے رات کے دس بجنے کا سگنل دیا۔‘‘
مارٹی نے اپنی روداد جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ہمیں یہ امید تھی کہ یہ کشتی ہمیں کنارے تک لے جائے گی، لیکن ہوائوں نے چلنا بند کر دیا اور طویل تھکن ہمیں اس حد تک میں روکنے کا ذریعہ بنی، چنانچہ میں اکیلا غوطہ خوری کرنے لگا، تاکہ جان لوں کہ یہ علاقہ گہرا ہے یا نہیں۔ میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً سو میٹر تیرا ہوں گا، لیکن اس تکلیف کے بعد مجھے یہ پتہ چلا کہ یہ علاقہ بہت گہرا ہے اور ہم تیرنا جاری رکھ کر کنارے تک نہیں پہنچ سکتے، کیونکہ یہ علاقہ بڑی شکاری مچھلیوں سے بھرا پڑا ہے، خاص طور پر شارک مچھلیاں جوکہ بکثرت اس علاقے میں گھومتی رہتی ہیں اور وہ باعث خوف و دہشت ہیں۔ چونکہ ہم ہر ہفتے شکار کے لیے سفر کرتے تھے، اس لیے ہمیں اس پرخطر علاقے کے بارے میں خوب معلومات تھیں۔‘‘
مارٹی کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہمارے دوست عماد رحیمی نے طے کیا کہ وہ پورا علاقہ تیر کر طے کرے گا، تاکہ قریبی حفاظتی مرکز تک پہنچ کر ہماری مدد کرے، لیکن ہم نے اس کی یہ تجویز اور جان جوکھم میں ڈالنا نامنظور کر دیا۔ موسم بہت سرد تھا اور سمندر کا پانی بھی بہت ٹھنڈا تھا۔ چنانچہ یہ سردی ہم نے صبح آٹھ بجے سے رات دس بجے تک برداشت کی، اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم نے تقریباً چودہ گھنٹے ہوائوں، لہروں اور سرد موسم کا مقابلہ کیا، لیکن عماد نے باوجود ہماری التجا کے جنون میں اپنی جان جوکھم میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا، وہ ہم سے دور ہوتا گیا، تاکہ ہمیں بچا لے۔ جبکہ اس کا بھائی زور سے اس کو آوازیں دے رہا تھا، تاکہ وہ اسی راستے سے لوٹ آئے، جس پر گیا تھا، کیونکہ کوسٹ گارڈوں کی حدود تک کا راستہ کافی طویل تھا۔ راستہ تقریباً دو کلو میٹر تھا اور یہ جگہ اندھیری اور پرخطر تھی، لیکن عماد نے ان خطرات کی بالکل پروا نہ کی اور خطروں سے کھیلنے کو ترجیح دی اور ہمیں حیران چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم صرف اس کے سلامت واپس لوٹنے کے لیے دعا ہی کر سکتے تھے، کیونکہ اجتماعیت سفر کی بنیادی چیزوں میں سے ہے۔ اس کے لوٹنے کے انتظار میں گھڑیاں گزرتی رہیں، جبکہ ہم قطعاً مایوس نہیں ہوئے تھے باوجودیکہ اس نے غوطہ خوری کا لباس نہیں پہن رکھا تھا۔‘‘
موت کے اس سفر میں عماد دور ہوتا جارہا تھا، مسٹر ریچرڈ نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے تو کبھی اپنی زندگی میں تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میں ایسی دہلا دینے والی بہادری کا مظاہرہ دیکھوں گا، جو عماد نے کیا، حالانکہ اس کی عمر پچیس سال کی تھی، لیکن جب اس نے اپنے آپ کو ان تکالیف کے درپے کر دیا، جو بلند پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کر دے اور اس موت کے کھیل میں اگر کوئی مزیدار بات ہے تو وہ یہ کہ حفاظتی کشتیاں جب ہمیں ڈھونڈ رہی تھیں تو اس وقت وہ ہمارے سامنے سے گزر رہی تھیں، لیکن وہ سخت اندھیرے کے باعث جو اس جگہ کو گھیرے ہوئے تھا، ہمیں نہیں دیکھ سکتی تھیں اور نہ ہی ان کے کانوں تک ہماری (تھکن کی وجہ سے) کمزور آوازیں پہنچتی تھیں، جب کہ لہریں اپنے ہیبت ناک شور سے ہر اس آواز کو جو ہمارے حلق سے نکلتی تھیں، ڈھانپ لیتی تھیں تو وہ نہ ہونے کے برابر ہو جاتی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More