قتیبہ بن مسلمؒ

0

عبدالمالک مجاہد

گزشتہ مضمون میں قتیبہ بن مسلمؒ کے سمرقند کو فتح کرنے سے متعلق انوکھا واقعہ آپ نے پڑھا تھا۔ اب اسلام کے اس نامور جرنیل کے بارے میں ذرا تفصیل سے جانتے ہیں۔
یہ قتیبہ بن مسلم بن عمرو بن حصینؒ ہیں۔ ان کے والد مسلم بن عمرو سیدنا ابن زبیرؓ کے بھائی مصعب بن زبیرؓ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ مصعب بن زبیرؓ ان دنوں عراق کے گورنر تھے۔ قتیبہ کا لڑکپن اور نوجوانی کا عرصہ گھوڑ سواری، تیر اندازی اور شمشیر زنی کے کمالات حاصل کرتے ہوئے گزرا۔ جب وہ ایک شاندار جنگجو اور شہسوار بن گئے تو امیر مہلب بن ابی صفرہ کی نگاہ انتخاب قتیبہ پر جا ٹھہری۔ مہلب کو انسانوں کے درمیان سے ہیرے تلاش کرنے کا بہت عمدہ تجربہ تھا۔ انہوں نے اس نوجوان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیا اور عراق کے گورنر کو لکھا کہ قتیبہ کو اپنی ٹیم میں شامل کرو۔ چنانچہ قتیبہ جب ہر آزمائش میں پورے اترے تو انہیں اسلامی فوج کا سپہ سالار بنا دیا گیا۔ انہوں نے خوارزم، بخارا، سمرقند، بلخ اور کاشغر کو فتح کیا۔ وہ جس طرف رخ کرتے، وہاں اسلام کے جھنڈے لہرا دیتے۔
جب آپؒ نے بخارا کے آخری شہر بیکند کا محاصرہ کیا تو آپ نے اپنے چند جاسوسوں کو شہر کے اندرونی حالات کی خبر لانے کے لیے بھیجا۔ وہاں کے عمائدین نے ان جاسوسوں کو بھاری رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ قتیبہ کے سامنے جا کر ایک مایوس کن رپورٹ پیش کریں اور صورت حال کو ہولناک بنا کر اس کی اس طرح وضاحت کریں کہ قتیبہ بد دل ہو کر شہر کو فتح کرنے کا ارادہ ترک کر دے اور واپس چلا جائے۔ قتیبہ کو جاسوسوں کی خیانت کا اندازہ ہو گیا۔ اس نے ان تمام جاسوسوں کو قتل کر دیا اور اپنے لشکر کو جمع کرکے ان کے سامنے ایک عظیم الشان خطبہ دیا۔ انہیں جہاد پر ابھارا، حتیٰ کہ تمام فوج ایک نئے ولولے کے ساتھ حملہ کرنے کے لیے تیار ہوگئی۔ اسلامی فوج نے بہادری اور جرأت کی شاندار داستانیں رقم کیں اور شہر فتح ہو گیا۔ بیکند کی فتح کے بعد اس قدر مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا جس کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔
قتیبہ بن مسلم 94 ہجری میں افغانستان کا رخ کرتا ہے اور کابل کو فتح کرتا ہے۔ پھر یہ مسلم جرنیل قسم کھا کر کہتا ہے: میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوںگا جب تک میں چین کی مٹی کو اپنے قدموں سے روند نہ لوں، یا مجھے چین کا بادشاہ جزیہ ادا نہ کرے۔ جب چین کے بادشاہ کو قتیبہ بن مسلمؒ کی قسم کے بارے میں علم ہوا تو اس نے سونے کا ایک بڑا برتن بنوایا، اس میں چین کی مٹی ڈالی۔ شاہی خاندان کے چار افراد کے ساتھ جزیہ اور سونے کا برتن جس میں چین کی مٹی تھی، قتیبہ کو بھجواتا ہے اور کہتا ہے: مسلم جرنیل چین کی اس مٹی کو قدموں تلے روند کر اپنی قسم پوری کرلے اور ہمارے ملک کا رخ نہ کرے، ہمیں جزیہ کی ادائیگی منظور ہے۔
قتیبہ بن مسلم اور ایک قیدی کا واقعہ:
حجاج بن یوسف کے دور کی بات ہے، اس کے پاس بغاوت کے مرتکب کچھ قیدی لائے گئے۔ حجاج نے ان سب کے قتل کا حکم دیا، مگر خدا کی مرضی ایسی ہوئی کہ ایک قیدی قتل ہونے سے رہ گیا تھا کہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا۔ حجاج نے حکم دیا کہ قتل کا سلسلہ روک دیا جائے، پہلے نماز ادا کی جائے۔ حجاج کو نجانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنے نہایت معتمد سالار قتیبہ بن مسلم کو اشارہ کیا کہ میری بات سنو۔
قتیبہ سے کہنے لگا: اس قیدی کو تم اپنے گھر لے جائو۔ کل صبح اسے لے کر آنا، اسے کل قتل کریں گے۔ آج کی رات یہ باغی تمہارے پاس گزارے گا۔ قتیبہ نے قیدی کو ساتھ لیا اور اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔
قتیبہ بن مسلمؒ کہتے ہیں: راستے میں اس قیدی نے بڑی لجاجت سے مجھ سے کہا: قتیبہ! میری بات سنو۔ میں نے کہا: ہاں، بولو! کیا کہتے ہو؟ کہنے لگا: اگر تمہارے اندر کچھ خیر کا جذبہ ہے تو میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ میں نے اجازت دی تو کہنے لگا: میرے گھر میں لوگوں کی امانتیں رکھی ہوئی ہیں۔ تمہیں معلوم ہے کہ کل حجاج مجھے قتل کر دے گا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ تم مجھے میرے گھر جانے دو۔ میں لوگوں کی امانتیں واپس کر دوں، حق داروں کا حق ادا کروں جو کچھ لینا دینا اور حساب کتاب ہے، اپنے ورثاء کو بتا آئوں۔ میں رب العالمین کو کفیل بنا کر کہتا ہوں کہ میں کل واپس آ جائوں گا۔
قتیبہ کہتے ہیں: میں اس کی بات سن کر بڑا متعجب بھی ہوا اور مسکرایا بھی کہ یہ کس قسم کی بات کر رہا ہے؟! اس نے پھر میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: سنو! میں اپنے رب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں ضرور واپس آ جائوں گا۔ بس تم ایک مرتبہ مجھے جانے دو۔ ادھر میں مسلسل انکار کرتا رہا اور وہ اصرار کرتا رہا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایک باغی کو چھوڑ دوں، یہ کیسے ممکن ہے؟ ادھر اس کا اصرار جاری رہا۔ وہ منت سماجت کرتا رہا۔ اپنے دلائل دیتا رہا، وعدے کرتا رہا۔ مجھے اس پر نجانے کیوں ترس آ گیا۔ میں نے اس کی بات کا اعتبار کر لیا اور کہا: جائو! تم جا سکتے ہو، لیکن ہر حال میں صبح سویرے واپس آ جانا۔
جیسے ہی میں نے اس کی رسیاں کھولیں اور اسے اجازت ملی تو وہ فوراً روانہ ہو گیا۔ اب وہ چلا تو گیا، مگر میری یہ حالت تھی کہ مجھے اپنے اس فیصلے پر بڑی ندامت اور پشیمانی ہوئی۔ میں نے یہ کیا کر دیا، اسے چھوڑ کیوں دیا۔ اس کے وعدوں پر کیوں اور کیسے اعتبار کر لیا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک باغی آزاد ہونے کے بعد قتل ہونے کے لیے واپس آ جائے۔ میں حجاج کو خوب جانتا تھا کہ وہ اگلے دن صبح سویرے سب سے پہلے مجھ سے قیدی کے بارے میںسوال کرے گا۔ جب قیدی اسے نہیں ملے گا تو پھر میری خیر نہیں۔ قیدی کے بدلے میں مجھے قتل کروانا حجاج کے لیے معمولی سی بات ہوگی۔ یہ رات میری زندگی کی سب سے طویل اور بھیانک رات ثابت ہوئی۔ میں رب کے حضور روتا رہا، مناجات اور دعائیں کرتا رہا۔ میری ایک ہی تمنا تھی کہ وہ باغی واپس آ جائے۔ میں اگلے دن کی صبح کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ صبح سویرے ہی میرے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو سامنے وہ باغی قیدی کھڑا تھا۔ میں نے لاکھ مرتبہ رب کا شکر ادا کیا۔ میری جان میں جان آئی۔ مجھے اعتبار نہیں آ رہا تھا اور پھر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا: تم واقعی واپس آگئے ہو؟ کہنے لگا: قتیبہ! تمہارے سامنے ہی تو کھڑا ہوں اور پھر اس بدو نے بڑی زبردست بات کہی۔ کہنے لگا: ’’میں نے میں نے رب العزت کو کفیل بنایا تھا تو پھر میں واپس کیسے نہ آتا؟!‘‘
میں نے اسے ساتھ لیا اور حجاج کے پاس چلا آیا۔ قیدی کو میں نے دربان کے پاس چھوڑا۔ حجاج نے مجھے دیکھتے ہی کہا: قتیبہ! وہ ہمارا قیدی کدھر ہے؟ میں نے کہا: امیر کی خیر اور سلامتی ہو، آپ کا قیدی دروازے پر دربان کے پاس ہے۔
میں دروازے کی طرف لپکا اور قیدی کو حجاج کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے عرض کی: جناب امیر! قیدی آپ کو واپس کیا جاتا ہے، مگرجو کچھ رات کو پیش آیا ہے، پہلے وہ سن لیں۔ ا س کے ساتھ ہی میں نے اسے رات والا پورا واقعہ من وعن سنا دیا کہ کس طرح اس نے امانت کی ادائیگی کے لیے منتیں سماجتیں کر کے مجھ سے ایک رات کی رخصت لی، خدا کو کفیل بنایا اور پھر وعدے کے مطابق واپس بھی آ گیا۔
حجاج نے قیدی کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دیکھنا شروع کر دیا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید اسے وعدے کی پاسداری پسند آ گئی یا خدا نے اس کے دل میں نرمی ڈال دی۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا: ’’یہ قیدی میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔‘‘ تم جو سلوک چاہو اس کے ساتھ کرسکتے ہو، تمہاری مرضی ہے۔ میں نے باغی قیدی کو اپنے ہمراہ لیا اور باہر آ گیا۔ باہر نکلے تو میں نے قیدی سے کہا: جائو! جہاں تمہارا جی چاہے چلے جائو۔ تم میری طرف سے آزاد ہو۔
باغی نے اپنی رہائی کی بات سنی تو اپنا چہرہ آسمان والے کی طرف کر لیا۔ کہنے لگا: ’’خدایا! تمام تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں اور تیرا ہی شکر ہے۔‘‘
یہ کہتے ہی وہ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ اس نے مزید کوئی بات کہی نہ میرا شکریہ ادا کیا۔
مجھے بڑا تعجب تھا کہ بڑا عجیب آدمی ہے اس نے میرا شکریہ ادا کرنا بھی گوارا نہیں کیا، حالانکہ میں نے تو اسے موت کے منہ سے بچایا ہے۔ خیر میں اس پر افسوس کرتا ہوا گھر آگیا۔ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ یہ شخص واقعی بدو ہے، مجنون ہے، دیوانہ ہے، مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والا بدو عقیدہ توحید پر کتنی سختی سے کاربند ہے۔
اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو وہ بدو ایک مرتبہ پھر میرے گھر آ گیا۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگا: ’’بھائی! حق تعالیٰ آپ کو میری طرف سے بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔‘‘ میں نے کل آپ کے ہاں سے جاتے ہوئے صرف رب تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی تھی اور اسی کا شکر ادا کیا تھا۔ میں نے آپ کا شکریہ ادا نہیں کیا۔ مجھے خوب معلوم ہے کہ یہ کوئی اچھی بات نہ تھی۔ لیکن آپ برا مت مانیے گا، میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں رب تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کے شکر میں کسی غیر کو شریک کرنا نہیں چاہتا تھا۔
قارئین کرام! اسلام کا یہ بطل جلیل بے شمار کامیابیاں سمیٹ کر صرف 47 برس کی عمر میں ایک لڑائی میں قتل کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ اسلامی قتیبہ بن مسلم کے نام پر ہمیشہ ناز کرتی رہے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More