بجلی کے نام پر سیاست

0

گزشتہ مسلم لیگی حکومت کی ناکامی اور 2018ء کے عام انتخابات میں اس کی عبرت ناک شکست کا بڑا سبب اس کے ہاتھوں قومی اداروں کی تباہی، بدعنوانی، نااہلی اور اعلیٰ سطح پر لوٹ کھسوٹ ہے، جس کے نتیجے میں عوام پہلے سے زیادہ بدحال اور مقتدر و متمول طبقات خوب خوش حال ہوئے۔ اس کے علاوہ بجلی کا شدید بحران بھی سابقہ حکومت کی بدنامی و ناکامی کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے 2013ء کی انتخابی مہم میں بڑے بلند بانگ دعوے کئے تھے کہ ان کی جماعت برسراقتدار آگئی تو چھ سے بارہ ماہ کے عرصے میں ملک سے بجلی کی قلت اور لوڈشیڈنگ کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جائے گا۔ صنعت و تجارت کو فروغ حاصل ہو گا اور عوام کے بنیادی مسائل حل ہونے سے وطن عزیز تیز رفتار ترقی کی جانب گامزن ہو گا۔ ترقی و خوش حالی کے ایسے ہی دعوے 2008ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی نے کئے تھے، جس نے برسراقتدار آکر لوٹ کھسوٹ کا وہ بازار گرم کیا کہ پاکستان تو کیا عالمی تاریخ میں بھی شاید اس کی مثال نہ ملے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بجلی و پانی کے وفاقی وزیر راجا پرویز اشرف نے بجلی پیداوار کے مقامی اور سستے وسائل چھوڑ کر بیرونی ممالک سے نہایت مہنگے پاور پلانٹس خرید کر کمیشن اور کک بیکس سے خود بھی خوب مال کمایا اور اپنی پارٹی کے شریک چیئرمین کو بھی حصہ بقدر جثہ پہنچایا۔ پھر جب عدالت عظمیٰ نے چھبیس اپریل 2012ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کیا تو یہی راجا پرویز اشرف جولائی 2013ء تک پیپلز پارٹی کی جانب سے ملک کے وزیراعظم قرار دیئے گئے، جس کے بعد تو اس پارٹی نے ’’چپڑی اور دو دو‘‘ کے خوب مزے لوٹے۔ لیگی حکومت نے بھی اپنے وعدوں کے برعکس بجلی بحران حل کرنے کے بجائے ملک کے لیے بجلی کے گراں ترین منصوبوں کا انتظام کیا، جو ظاہر ہے کہ فی سبیل اللہ نہیں تھا، بلکہ اس میں عوام کے لیے بجلی مہنگی کر کے خوب مال کمایا ہو گا۔ اب کفن چوروں کی تیسری نسل برسر اقتدار آئی ہے تو اس کی تشہیری ٹیم کے ماہر ایک نئی بات کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ کی چور اور عوامی حمایت سے محروم حکومت نے نیپرا کی ہدایت پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ کر کے قومی جرم کیا، جس کی انہیں سزا مل کر رہے گی۔ بجلی بنانے کے دعوے کرنے والے قومی مجرموں نے سب سے زیادہ مہنگی بجلی پیدا کی۔ پروپیگنڈا باز وزیر کا کہنا ہے کہ بجلی مہنگی پیدا کر کے عوام کو سستی فراہم کی گئی، جس کے لیے قومی خزانے سے زرتلافی (سبسڈی) دیا گیا، جو قوم کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنا۔ وزیر موصوف نے اسے قومی جرم قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں لیگی حکومت کے اس جرم کی سزا اسے مل رہی ہے، جبکہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اصل حقیقت یہی ہے کہ چوروں اور لٹیروں کے اعمال بد کی سزا عوام ہی کو مل رہی ہے، جو ایک ایسی حکومت کی شکل میں ان پر مسلط ہے کہ جس نے برسراقتدار آتے ہی پہلے غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے انکار کیا اور پھر فوراً ہی اپنی ’’یوٹرن‘‘ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے آگے کشکول گدائی لے کر جانے کو اپنی مجبوری قرار دیا۔
اپنی نااہلی اور ناکامی کا الزام سابقہ حکومت پر ڈالنا پاکستان کی ہر حکومت کا وتیرہ رہا ہے، جس پر تحریک انصاف حکومت سازی سے قبل بھی عمل پیرا تھی، لیکن برسر اقتدار آتے ہی اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور اس نے ابتدا ہی میں چیخنا چلانا شروع کر دیا ہے کہ گزشتہ حکومت کا آخری ڈیڑھ سال بجلی کے حوالے سے بدترین تھا۔ بقول وزیر اطلاعات اگر ہم ان کا احتساب نہ کریں تو پھر پاکستان کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کی کیا ضرورت ہے؟ احتساب ضرور کیا جائے اور سب کا کیا جائے، لیکن سابقہ حکومت کو سزا دینے کی آڑ میں لوگوں پر بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا بوجھ ڈالنے والوں کا احتساب کون اور کب کرے گا؟ سبسڈی کے ذریعے بجلی کی کم قیمت وصول کرنا بڑا جرم ہے یا بجلی کے نرخوں میں اچانک اور فوراً چار روپے فی یونٹ تک اضافہ کرنا؟ اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کا جو نیا طوفان لایا جا رہا ہے، اس نے روزمرہ ضرورت کی تمام اشیا مہنگی کر دی ہیں۔ اسی طرح روپے کی گراوٹ اور ڈالر کو ایک سو سینتیس روپے تک پہنچا دینے کے باعث برآمدی خسارے میں شدید اضافہ عام شہری پر کتنا بوجھ بنے گا۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی پسپائی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کے عوام دو ماہ سے بھی کم عرصے میں اس کے دعوئوں اور زمینی حقائق کا فرق سمجھ چکے ہیں۔ وہ صاف کہہ رہے ہیں کہ انہیں ایسی تبدیلی نہیں چاہئے، جو اپنے سو دن پورے کرنے سے پہلے ہی غریبوں پر ظلم ڈھانا شروع کر دے اور سبسڈی کے طور پر ہی سہی، عوام کو سہولتیں دینے والوں کو قومی مجرم قرار دینے لگے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے تقریباً چودہ کروڑ عوام بجلی کی سہولتوں سے محروم ہیں یا پھر وہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کی لوڈشیڈنگ برداشت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ بجلی کے استعمال میں احتیاط کریں، جو ان کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ بجلی کے زیادہ استعمال اور اس کی چوری میں بڑے بڑے حکومتی ارکان، نوکر شاہی کے کارندے اور مراعات یافتہ متمول طبقات ملوث ہیں۔ وہی بجلی کی چار ہزار میگاواٹ قلت اور لوڈ شیڈنگ کے ذمے دار ہیں، لیکن ان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت موجودہ حکومت بھی نہیں کر پا رہی۔ الٹا عوام ہی کو زیربار کر کے بجلی کی زائد قیمتیں وصول کرنے کے درپے ہے۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے سے پہلے مجبور و بے کس اہل وطن کو مزید نچوڑنے کی طرح بجلی کی پیداوار اور فراہمی میں نااہلی اور بدعنوانی کرنے والوں کی گرفت کرنے کے بجائے بجلی مہنگی کرنا بجائے خود اتنا بڑا ظلم اور جرم ہے کہ اس کے ذمے داروں کی بہت جلد اور سخت گرفت ہو کر رہے گی۔ گزشتہ سال بجلی کی قلت کے باعث قومی معیشت کو چودہ ارب روپے کا نقصان ہوا تھا اور کم و بیش پانچ لاکھ افراد کے بے روزگار ہونے سے ان کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی۔ بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں بدترین نااہلی کے باعث گزشتہ پانچ برسوں میں ملک کو ایک کھرب پینتالیس ارب روپے سالانہ کا خسارہ ہو چکا ہے۔ بجلی کے گھریلو صارفین یو پی ایس، جنریٹر اور دیگر ذرائع سے بجلی حاصل کرنے پر تیس ارب روپے خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان کو محب وطن اور عوام دوست حکمراں میسر آجائیں تو یہاں دھوپ، ہوا اور پانی سے وافر اور سستی بجلی پیدا کرنے کے بے شمار مواقع قدرت نے دیئے ہیں۔ ان ذرائع کو اختیار کرنے سے پہلے بجلی کے شعبے میں بھی تبدیلی کے تمام دعوے اور وعدے حسب سابق جھوٹے ہی ثابت ہوں گے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More