احمد خلیل جازم
حضرت موسیٰ حجازی کا عرس بھی آٹھ دوالحج کو منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر گجگراں، بھگوال کلاں، ٹانڈہ، جلال پور جٹاں، گجرات سمیت ملک کے دیگر شہروں اور دیہات سے کافی تعداد میں زائرین آتے ہیں۔ عرس کی تقریبات بھی میاں ارشد کراتے ہیں اور سارا انتظام خواجہ گوہرالدین کے خاندان کے ہی پاس رہتا ہے۔ یہاں ابھی تک محکمہ اوقاف کو رسائی نہیں مل سکی۔ خالد سے پوچھا گیا کہ یہاں لوگ زیادہ تر کیا مرادیں مانگتے ہیں، تو اس کا کہنا تھا ’’یہ کہنا کہ یہاں کوئی خاص مراد حاصل ہوتی ہے تو درست بات نہیں ہوگی۔ یہاں ہر کسی کے دل کی مراد پوری ہوتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ صدق دل سے دعا مانگے۔ ہماری تیسری پشت یہاں موجود ہے۔ بچپن سے دیکھتے چلے آرہے ہیں، ہر کسی کی مراد پوری ہوتی ہے۔ کوئی شاذ و نادر ہی بدنصیب شخص ہوگا جو یہاں سے خالی ہاتھ لوٹایا جائے گا۔ اب اس مزارکی چوتھی بار تعمیر نو ہوئی ہے۔ سب سے پہلے اس قبر کو خواجہ گوہرالدین نے پختہ کرایا اور اس پر چھت کے بغیر مزار بنوایا تھا۔ صدیوں پہلے بھی اس قبر پر لوگ آتے تھے۔ پہلے دور میں لوگ اس مزار پر جانوروں کو پہنائی جانے والی خوبصورت رسیاں باندھا کرتے تھے۔ کچھ لوگ گگو گھوڑے رکھ جاتے۔ یہ کیوں رکھتے تھے، کوئی منت تھی یا پھر کوئی اور بات، اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ البتہ تمام مذاہب کے لوگ یہاں یہ رسومات ادا ضرور کرتے تھے۔ جب حضرت گوہرالدین نے آپ کے مزار کی تصدیق کی تو پھر انہوں نے اس اونچے ٹبے کو بیلوں کے پیچھے سہاگے ڈال کر برابر کیا۔ اس وقت یہاں یہ اکلوتی قبر تھی۔ اگر کوئی کہے یہاں پہلے قبرستان تھا تو یہ بالکل درست نہیں ہے۔ بس گھنے درخت، اونچا ٹیلا اور اس پر قبر تھی۔ یہ تمام قبور بعد میں ان لوگوں نے بنائیںہیں، جن کی ملکیتی زمین ہے۔ کیونکہ یہ دربار کی اپنی زمین نہیں ہے۔ جو راستہ ہے یہ بھی کچا ہے، اور یہ لوگوں کی زمنیوں سے گزر کر آتا ہے۔ مالکان نے مزار کے لیے اپنی زمینوں سے یہ راستہ وقف کیا ہوا ہے۔ خواجہ صاحب نے مزارکے ساتھ ایک چھوٹی سے مسجد بھی تعمیر کرادی تھی، جہاں لوگ مزار پر حاضری دیتے اور نماز کے اوقات میں نماز ادا کرتے تھے۔ ابھی ایک برس قبل یہ نئی مسجد میاں ارشد نے تعمیرکرائی ہے، کیونکہ اس مزار پر تعمیرات کا جتنا کام ہے وہ خواجہ گوہرالدین کے خاندان کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو تعمیرکی اجازت نہیں ہے‘‘۔
نو گز لمبی قبور کے حوالے سے مختلف لوگوں نے لکھا ہے۔ اس کے حق میں بھی دلائل کے انبار لگائے گئے اور مخالفت میں بھی بہت کچھ لکھا گیا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر دور میں انبیا مبعوث کیے گئے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ انسانوں اور جنات دونوں میں انبیائے کرام مبعوث ہوتے رہے۔ کتاب ’’نو گزے یا پیغمبر‘‘ از حامد حسین سید میں لکھا ہے کہ ’’گجرات کے آس پاس جن اصحاب قبور کی نشان دہی کی گئی ہے، اگرچہ عیسائیوں کی مقدس کتاب بائبل سے ان ناموں کی تصدیق نہیں ہوتی، لیکن باور کیا جاسکتا ہے کہ عبرانی زبان کے یہ نام عربی، فارسی اور سنسکرت میں ڈھل کر بدل گئے ہوں۔ البتہ حضرت امنوں کا نام اس حوالے سے ملتا ہے، جو دائود کے بیٹے ہیں، اور جزون میں پیدا ہوئے تھے۔ تواریخ کے باب میں ان کا نام ’آمنون‘ ہی بتایا گیا ہے (جبکہ گجرات میں امنون کہا جاتا ہے)۔ بائبل میں آمنونؑ کا ذکر متعدد بار آیا ہے۔ جہاں تک طانوخ کا ذکر ہے تو یہ لفظ طالوت ہی ہو سکتا ہے۔ بنی یہواہ میں ایک شخص کا نام ذنوخ تھا، کیا خبر یہی ذنوخ بعد میں طانوخ بن گیا ہو‘‘۔ اسی دورے کے دوران ہماری ملاقات ایک بزرگ محمد اعظم سے ہوئی۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’میں تیس برس تک یو اے ای میں رہا ہوں۔ وہاں العین کے مقام پر اسی طرح کی ایک لمبی قبر تھی۔ یہ 1987ء کی بات ہے۔ اس وقت اس قبر پر ایک بوڑھا عربی متولی تھا، جو اپنی عمر 255 برس بتاتا تھا۔ خدا خبر اب وہ زندہ ہے کہ نہیں۔ لیکن وہ بتایا کرتا تھا کہ یہ صحابی رسولؐ حضرت کعبؓ کی قبر ہے۔ (امت کی تحقیق کے مطابق بعض لوگ انہیں کعب بن زہیرؓ، جبکہ بعض کعب الاحبار کی لحد سے منسوب کرتے ہیں۔ لیکن کعب الاحبار کی وفات ملک شام میںہوئی تھی۔ جبکہ کعب بن زہیرؓ کی قبر مبارکہ کا واضح ثبوت نہیں مل سکا)۔ وہ عربی پشت در پشت اس مزار پرمتولی کے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ یہ قبر کچی اور کئی گز لمبی تھی۔ اب بھی امید ہے موجود ہوگی۔ اس وقت وہاں کے شاہ کی بیٹی نے اس عربی بوڑھے کے کہنے پر اس کے اردگرد چار دیواری بنوا دی تھی‘‘۔
دوسری جانب حامد حسین سید اسی کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ’’گجرات قدیم دور کے انسانوں، تاجروںاور حکمرانوں کی گزرگاہ رہا ہے۔ خیبر سے گزر کر آنے والی فوجوں کے لیے بھی یہی میدان تھے، جہاں مزاحمت کا سامنا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں فوجوں کا راستہ کھاریاں، گلیانہ تھا جو، اب کھاریاں گلیانہ روڈ ہے۔ پیش قدمی کے اس راستے پر جہاں چھوٹے بڑے راستے نکلتے تھے، وہ بھی مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے روندے جاتے تھے۔ دشمن کی سرزمین تھی۔ قدم قدم پر مزاحمت ہوتی تھی، اور ٹکرائو کے نتیجے میں مسلمان سپاہی بھی شہید ہوتے تھے۔ انگریزوں کی فوج نے لاہور پر قبضے کے بعد سکھوں کی ’’چھٹی بادشاہی‘‘ کی سرکوبی کا فیصلہ کیا، تو میدان جنگ یہی گجرات تھا۔ شاہ جہانگیر کے مقبرے سے باہر اب بھی چند اجتماعی قبریں ستونوں کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ 1965ء میں دشمنوں کا پاکستان پر حملے کا نقشہ سیدھا سادا تھا(یعنی یہی راستہ تھا)۔ قبور طویلہ یا نو گزی قبریں گمنام شہیدوں کی قبریں ہیں۔ گمنام شہیدوں کو سلام نہ کہنا احسان فراموشی ہے اور انہی کے دم سے تاحال یہاں روحانی فیض جاری ہے‘‘۔ حامد حسین یہاں صاف مطلب یہ لے رہے ہیں کہ یہ علاقہ افغان مسلمان حملہ آوروں کی گزر گاہ تھا، اور 65ء کی جنگ میں بھی یہ علاقہ اتنا ہی حساس تھا، جتنا صدیوں پہلے تھا۔ چنانچہ افغان یا دیگر حملہ آوروں کے درمیان گجرات کے میدان میں ہی معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ جو سپاہی شہید ہوتے، ان کے جسد خاکی ساتھ نہیں لے جائے جا سکتے تھے، لہٰذا دوسری صورت میں انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ بھی اس کتاب میں نو گزی قبروں میں مدفون انبیائے کرام کے جسد مبارکہ نہ ہونے کے دلائل موجود ہیں۔حامد حسین عام آدمی نہیں تھے، بلکہ زمیندار ڈگری کالج میں انگریزی ادب کے استاد تھے۔ مذہب، تاریخ، فلسفہ اور تنقید و تحقیق میں جداگانہ مقام رکھتے تھے۔ جبکہ ان مزارات پر بیٹھے لوگ یا دیگر صوفیائے کرام کے دلائل اپنی جگہ موجود ہیں کہ یہ قبور انبیائے کرام کی ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ تھا کہ حضرت موسیٰ حجازی کی قبر سمیت تمام قبور ویرانوں میں کیوں ہیں۔ اس مزار کے بارے میں شیخ ضیا پہلے بتا چکے تھے کہ ’’اس علاقے میں جنگلی جانور کثرت سے پائے جاتے ہیں، لیکن کسی جنگلی جانور نے مزار کی جانب آنے والے کسی شخص پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی مزار کے احاطے میں کبھی داخل ہوئے ہیں‘‘۔ خالد کا کہنا تھا… ’’یہ سوال حضرت گوہرالدین سے بھی کیا گیا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے اس دور میں ان ویرانوں میں آبادی ہو۔ کیونکہ قدیم عہد میں ہمیشہ آبادیاں دریا کے کنارے ہی ہوا کرتی تھیں۔ بہت بڑی بڑی قومیں تباہ و برباد ہوئی ہیں۔ قرآن کریم اس کے بارے وضاحت سے بتاتا ہے۔ ممکن ہے اس جگہ کے نیچے بھی کوئی شہر دفن ہو‘‘۔ خالد سے صاحبِ مزار کی کرامات کے حوالے سے گفتگو کی تو انہوں نے کہا ’’یہاں انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوق بھی حاضری دینے آتی ہے۔ خاص طور پر جنات زیادہ حاضری دیتے ہیں۔ کچھ باتیں راز کی ہوتی ہیں۔ انہیں راز ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ صاحبِ مزار نہیں چاہتے کہ ان رازوں کو افشا کیا جائے۔ بس میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ جنہیں بلاتے ہیں وہی اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ ورنہ کوئی اندر بھی نہیں جاسکتا۔ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ یہاں بڑی دور دور سے دنیا آتی ہے۔ یقین کریں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دس لوگ ہیں تو صرف ایک بندہ ہی اندر جاسکا، باقی نو لوگ باہر سے ہی واپس چلے گئے۔ بعض اوقات لنگر تیار ہوتا ہے، دیگیں پکی ہوتی ہیں، بیس لوگ آتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی کے بھی نصیب میں ایک نوالہ نہیں ہوتا۔ باقی دنیا کھا رہی ہے، لیکن وہ بیس لوگ محروم رہے۔ ایک واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ گائوں کا ہی ایک شخص ایک روز میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرے ساتھ عجیب واقعہ ہوا۔ مزار کے بورڈ سے دس قدم آگے چلتا تھا کہ موٹر بائیک بند ہوجاتی۔ اسے واپس موڑ کر اسٹارٹ کرتا پھر دس قدم کے بعد بند ہوجاتی۔ دو گھنٹے بیت گئے یہی صورتحال ہے۔ موٹر بائیک بھی بالکل نئی ہے، کوئی خرابی بھی بظاہر نہ تھی۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید آج مجھے اُدھر (قبر) جانا ہے۔ میں نے وہاں جاکر حاضری دی، اپنے حق میں دعا کی، واپس آیا، موٹر بائیک کو کک لگائی تو پہلی کک پر اسٹارٹ ہو گئی۔ اور دیکھ لو ابھی تک اسٹارٹ ہے۔ جدھر چاہوں نکل جائوں۔ اب بند ہونے کا نام تک نہیں لے رہی‘‘۔ خالد کا مزید بتانا تھا کہ ’’اب بھی علاقے میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنہوں نے آپ کی زیارت کی ہے۔ آپ کا مزاج جمالی ہے جلالی نہیں۔ بہت مہربان ہیں۔ جن لوگوں نے مزار کی تعمیر میں حصہ لیا، ان تمام بزرگوں کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ اب تو لوگ اپنا گھر بسانے لگتے ہیں تو سب سے پہلے یہاں آکر حاضری دیتے ہیں۔ دولہے اپنے گلے سے سہرے نکال کر مزار پر ٹانگ دیتے ہیں۔ آپ نے مزار کے ساتھ سہرے دیکھے ہوں گے، وہ سب نئے دولہے لٹکا جاتے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ حجازی کے مزار سے واپسی کو من نہیں چاہتا تھا، لیکن واپسی ضروری تھی۔ چنانچہ دوبارہ مزار اور اس کے اردگرد قدیم درخت دیکھے۔ مزار کے ساتھ وہ سہرے بھی دیکھے جو دولہے لٹکاتے ہیں۔ مزار کے ساتھ چھوٹا سا قبرستان ہے، جس میں ایک قدیم درخت قبروں پر چھائوں کیے ہوئے ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ لمبی قبریں شہدا کی ہیں اور اکثر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں حضرت موسیٰ حجازی مدفون ہیں۔ حقیقت کیا ہے ، یہ صرف اللہ کی ذات کو معلوم ہے۔
٭٭٭٭٭
Next Post