عباس ثاقب
امر دیپ سنگھ مجھے خاصا متواضع شخص لگا۔ اس نے میرے اترنے کا انتظار کیا اور پھر میرا سامان نوکروں کے ذریعے اٹھوانے کے بعد مجھے ساتھ لے کر حویلی کے بڑے سے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ سامنے ایک بڑا سا احاطہ تھا، جس میں سامنے ایک عالی شان دو منزلہ عمارت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے پہلو میں لگ بھگ بیس گز کے فاصلے پر ایک اور نسبتاً مختصر اور سادہ، لیکن پختہ ایک منزلہ مکان تھا۔
احاطے کی دوسری طرف والی دیوارکے ساتھ بھی چھوٹے چھوٹے کمروں کی ایک قطار دکھائی دے رہی تھی۔ رات کا آخری پہر قریب ہونے کے باوجود احاطے میں ہلچل دکھائی دے رہی تھی اور گھر کے ملازمین ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ ان میں دو نے آکر گرم جوشی سے ہمارا خیر مقدم کیا اور چھوٹی عمارت کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ اس عمارت کے سامنے ایک چھوٹا سا برآمدہ موجود تھا، جس کی بیرونی دیوار میں دو بڑے محراب دار دروازے موجود تھے۔ میری، یعنی ایک بن بلائے اجنبی مہمان کی آمد کی وہاں کسی کو اطلاع نہیں تھی۔ لیکن امر دیپ مجھے جس کمرے میں لے کر گیا، وہ کسی مہمان کے استقبال کے لیے تیار دکھائی دیا۔ پنجاب کی سرد رات میں نصف کھلی جیپ میں طویل سفر کے بعد وہ کمرا کچھ زیادہ ہی راحت بخش محسوس ہوا۔ لیکن امر دیپ کچھ زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیا۔ اس نے ملازموں سے جھٹ پٹ لحاف اور تکیے تبدیل کرائے اور انہیں پانی گرم کر کے غسل خانے میں رکھنے کا حکم دیا۔ تب مجھے مداخلت کرنی پڑی۔ ’’امر دیپ بھائی اتنے تکلف کی ضرورت نہیں۔ میں اب صبح اٹھ کر ہی غسل کروں گا۔ آپ بھی جاکر آرا م کریں۔ صبح ملاقات ہوگی‘‘۔
اس نے میرے اصرار پر پانی گرم کرنے کا حکم تو واپس لے لیا، تاہم وہ جانے کے بجائے وہیں کمرے میں بچھے دوسرے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ ’’چلا جاؤں گا بھائی۔ پہلے تم سے تھوڑی بہت گپ شپ تو ہو جائے۔ بچہ پارٹی نے تم سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا‘‘۔
میں نے شرمندہ سا ہوکر کہا۔ ’’ہاں، ہاں، ضرور امر دیپ بھائی۔ مجھے خود آپ سے گفتگو کا بہت اشتیاق تھا۔ آپ کے گھر والوں سے آپ کے بارے میں کافی باتیں ہوئی ہیں۔ اس طویل سفر نے ہم لوگوں کو بہت قریب کر دیا ہے۔ خصوصاً بڑے سردار جی نے تو بہت پیار اور عزت دی ہے۔ بچوں میں مانو سے میری پکی یاری ہو چکی ہے‘‘۔
میری بات سن کر وہ مسکرایا۔ ’’مانو تو یوں سمجھو دل جیتنے میں ایکسپرٹ ہے۔ منٹوں میں غیر کو اپنا بنا لیتا ہے۔ اچھا اپنے بارے میں کچھ مزید بتاؤ۔ بشنو اور پتا جی نے تو بس اتنا ہی بتایا ہے کہ تم لندن میں پیدا ہوئے ہو اور پہلی بار ہندوستان دیکھنے آئے ہو‘‘۔
میں نے امر دیپ کو اپنے بارے میں وہ سب مختصراً بتادیا، جو میں اس کے گھر والوں کے گوش گزار کر چکا تھا۔ میں نے ابھی بات پوری بھی نہیں کی تھی کہ مانو دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ امر دیپ کو کہا۔ ’’تایا جی… دادا کہہ رہے ہیں مہمان کو ساتھ لے کر آجاؤ۔ کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے‘‘۔
مجھے احساس ہوا کہ رات گئے تک جاگنے کی وجہ سے واقعی مجھے بھی بھوک لگ چکی ہے۔ تبھی مانو مجھ سے مخاطب ہوا۔ ’’چلو بہادر چاچا … دادا جی کو کھانے پر انتظار کرنا اچھا نہیں لگتا‘‘۔
امر دیپ نے اس کی تائید کی اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ ہم حویلی کے بلند و بالا محراب دار مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو مجھے سامنے انتہائی شان دار سجاوٹ والی کشادہ نشست گاہ دکھائی دی۔ جس کے وسط میں فرش پر ایک بہت بڑا دستر خوان سجا ہوا تھا۔ جس پر انواع و اقسام کے کھانے پروسے گئے تھے۔ ہمیں دیکھ کر براہم دیپ سنگھ جی نے پرجوش لہجے میں کہا۔ ’’جلدی سے آجا ؤ جوانو! بھوک سے برا حال ہے‘‘۔
بزرگ سردارنی یعنی بے بے جی، بشن دیپ اور اس کی بیوی نے بھی گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا۔ پتا نہیں کھانا واقعی لذیذ تھا یا رات کے آخری پہر کی بھوک نے رنگ دکھایا، بہرحال میں نے بہت رغبت سے کھانا کھایا۔ وہ لوگ گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کرتے تھے۔ بکرے کا گوشت بہت ہی مہارت سے بھونا گیا تھا۔کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو وہ بھی بہت عمدہ لگی۔ میں نے تعریف میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی لگ بھگ سب گھر والے محفل جمائے رکھنے کے موڈ میں دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن بے بے نے سب کو چپ چاپ اپنے بستروں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔ باقی سب تو ایک طرف، گراں ڈیل براہم دیپ سنگھ جی نے بھی اپنی منحنی سی بیگم کے فرمان کی کان دباکر تعمیل کرنے میں عافیت سمجھی۔
میں نرم گرم بستر میں دبکنے کے کچھ ہی دیر بعد گہری نیند سو گیا اور دوپہر تک سوتا رہا۔ پیشاب کی شدید حاجت نہ جگاتی تو میں شاید مزید نیند پوری کرتا۔ میں غسل خانے سے ہوکر واپس آیا تو ایک ملازم کو اپنا منتظر پایا۔ نیرج نامی وہ نوجوان ملازم مجھے رات کو بھی گھر والوں کی خدمت میں پیش پیش نظر آیا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے ٹھیٹھ دیہاتی پنجابی میں کہا۔ ’’بھائی جی، امر دیپ کاکا آپ کو دو بار دیکھنے آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آپ جاگ جائیں تو ان کے پاس لے جاؤں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭