سید ارتضی علی کرمانی
سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کے سجادہ نشین حضرت سلطان نور احمدؒ صاحب اور حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے درمیان روحانی تعلق اور عقیدت بہت بڑھ کر تھی۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ غلام رسول کو ایس پی کی دعوت پر حضرت صاحبؒ کہروڑ ضلع مظفر گڑھ تشریف لے گئے۔ وہاں قاضی فقیر محمد صاحب سکنہ بستی قاضیاں آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی حضرت صاحبؒ تغطیماً کھڑے ہوئے اور معانقہ فرمایا۔ چونکہ قاضی حکمت کے کام سے وابستہ تھے، جبکہ ان کو اس گاؤں میں کوئی غیر معمولی حیثیت اور شہرت حاصل نہ تھی۔
سبھی حاضرین متعجب ہوئے کہ پوچھیں تو سہی، شاید ان کو بھی کوئی درجہ حاصل ہو۔ چنانچہ ایک ذی وجاہت شخص نے عرض کیا کہ یا حضرت یہ تو اس علاقے کے ایک طبیب ہیں۔ حضرت صاحبؒ نے قدرے جوش کے لہجے میں فرمایا کہ ’’میں طبیب وغیرہ نہیں جانتا، میں تو صرف اس قدر جانتا ہوں کہ یہ حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کی اولاد سے ہیں۔‘‘
حضرت صاحبؒ اس سے قبل قاضی صاحب کو کبھی نہیں ملتے تھے۔ اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت صاحبؒ اولیائے عظام کی کس قدر عزت کیا کرتے تھے۔
اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ سلطان نور احمد صاحبؒ چونکہ سادات کی بہت عزت اور تکریم کرتے تھے۔ اس لئے جو کوئی بھی خود کو سید ظاہر کر کے کچھ بھی سوال کرتا، آپ اس کو پورا کرتے۔ ایک مرتبہ ایک سید صاحب ان سے ایک گھوڑے کے طلب گار ہوئے۔ چنانچہ آپ نے منظور فرمالیا۔ ان سید صاحب نے اصطبل میں جاکر جو گھوڑا پسند کیا، وہ سلطان صاحبؒ کی ذاتی سواری کا بہت بیش قیمت گھوڑا تھا۔ خدام نے ان کو بتایا کہ یہ سلطان صاحبؒ کے ذاتی استعمال کا ہے۔ مگر سید صاحب نے کہا کہ اگر وہ گھوڑا لیں گے تو وہی لیں گے۔
سلطان صاحب چونکہ سید صاحب کا سوال رد نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لئے آپ نے وہی گھوڑا ان کو دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد وہی سید صاحب سیال شریف کے عرس میں حضرت پیر صاحبؒ کی پذیرائی اور آپ کے گرد بے پناہ ہجوم دیکھ کر لپک کر آپ کی جانب آئے۔ ابھی انہوں نے کچھ بھی سوال نہیں کیا تھا کہ حضرت صاحب نے کچھ رقم جیب سے نکال کر ان کو دی اور فرمایا سیادت اعلی شرف ہے، اسے حقیر دنیا کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ آپ نے گھوڑے والا قصہ اس کو سنا کر بہت سمجھایا۔
سید صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کیونکہ یہ بات حضرت صاحبؒ اور سلطان صاحب کے علاوہ کسی کو معلوم نہ تھی۔ مگر حضرت صاحبؒ سے کوئی بات کس طرح پوشیدہ رہ سکتی تھی۔ سبھی کچھ آپ کے سامنے آجاتا تھا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭