رحمان مذنب صاحب راوی ہیں کہ: غازی علم دینؒ 4 دسمبر 1908ء کو متوسط طبقے کے ایک شخص طالع مند کے گھر (لاہور) میں پیدا ہوئے۔ یہ ان کے دوسرے بیٹے تھے۔ نجاری پیشہ تھا۔ عزت سے دن گزر رہے تھے۔ ایسے نامور نہ تھے، اپنے محلے تک ان کی شہرت محدود تھی یا پھر لاہور سے باہر جا کر کہیں کام کرتے تو محنت، شرافت اور دیانتداری کی بدولت مختصر سے حلقے میں اچھی نظر سے دیکھے جاتے۔ زندگی اس ڈھب کی تھی: صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے… زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔
اس زمانے میں مسجد محلے کے بچوں کی ابتدائی درسگاہ تھی۔ طالع مند نے بھی اپنے بیٹے علم دین کو مسجد میں بھیجا، تاکہ قرآن مجید پڑھے۔ علم دین نے کچھ دن وہاں گزارے، تعلیم حاصل کی، لیکن وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ قدرت کا کوئی راز تھا، ان سے ایسا کام لیا جانا تھا، جو عمل کی دنیا میں تعلیم سے بڑھ کر تھا، بلکہ تعلیم کا مقصود تھا۔ ان میں ایسا جوہر مخفی تھا، جس کے بچے کو خبر نہ تھی، لیکن اس جوہر نے آگے چل کر وہ کام کر دکھایا، جس سے انہیں ’’تب و تاب جاودانہ‘‘ میسر آئی۔ اس کام کا کوئی بدل نہ تھا۔ طالع مند کے دو بیٹے تھے، محمد دین اور علم دین۔ دونوں میں بڑا پیار تھا، علم دین والد کے ساتھ کبھی باہر جاتا تو محمد دین کو قلق ہوتا۔
ایک دفعہ محمد دین نے علم دین کے بارے میں ایک پریشان کن خواب دیکھا کہ علم دین زخمی ہے۔ محمد دین بے چین ہوا اور چھوٹے بھائی کی خیریت معلوم کرنے سیالکوٹ پہنچا۔ دونوں بھائیوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب محمد دین اپنے والد کے ٹھکانے پر پہنچا، تو علم دین چارپائی پر بیٹھا تھا، بھائی کو دیکھتے ہی علم دین اچھل پڑا۔ شدت جذبات سے دونوں بھائی بغل گیر ہوگئے۔ محمد دین نے دیکھا کہ علم دین واقعی زخمی ہے۔ ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ ہاتھ پر شیشہ لگا تھا، لیکن زخمی گہرا نہیں تھا۔ اگلے دن محمد دین واپس لاہور آگئے۔
علم دین نے بچپن میں بعض ایسے واقعات دیکھے، جن کے نقوش ان کے دماغ پر ثبت ہوئے اور ان کی کردار سازی میں کام آئے۔ علم دین ایک سال تک والد کے ساتھ کوہاٹ میں رہے۔ یہ علاقہ غیور اور بہادر پٹھانوں کا ہے، پٹھانوں کا یہ وصف ہے کہ جو ان سے نیکی کرے، وہ اسے بھلاتے نہیں، یاد رکھتے ہیں، بڑے مخیر طبع اور متواقع لوگ ہیں۔ محسن کو قرار واقعی صلہ دیتے ہیں، جان تک نثار کر دیتے ہیں۔ علم دین کے والد نے کوہاٹ جا کر رہنے کے لیے مکان کرائے پر لیا، جس کا مالک اکبر خان نامی پٹھان تھا۔ طالع مند ایک دن کام میں مصروف تھے کہ کسی نے آکر بتایا کہ ان کے مالک مکان اکبر خان کا بھائی سے جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس کا بھائی شدید زخمی ہوگیا ہے اور اس کی رپورٹ پر پولیس نے اکبر خان کو گرفتار کر لیا ہے۔
اکبر خان کی گرفتاری کی خبر سنتے ہی طالع مند نے کام چھوڑا اور اکبر خان کی مدد پر جانے کو تیار ہوگئے۔ طالع مند کے ایک ساتھی روشن خان نے حیرانی سے پوچھا طالع مند! تمہاری اکبر خان کے ساتھ کوئی رشتہ داری ہے، جو یوں کام چھوڑ کر جا رہے ہو؟ طالع مند نے کہا میں اس کا کرایہ دار ہوں، وہ میرا محسن ہے، اگر خوشی کے وقت وہ مجھے نہیں بھول سکتا تو پھر میں مصیبت کی گھڑی میں اس کی خیر خبر نہیں لے سکتا۔
روشن خان اور طالع مند دونوں ساتھ چل پڑے اور دونوں کی کوشش سے اکبر خان پولیس کے گرفت سے چھوٹ گیا۔ اس واقعہ کا اکبر خان پر یہ اثر ہوا کہ طالع مند کی ضد اور اس کے اصرار کے باوجود اکبر خان نے ایک سال تک اس سے کرایہ وصول نہیں کیا۔ جب طالع مند واپس لاہور آئے تو اکبر خان نے پیار کی نشانی کے طور پر باپ بیٹے کو ایک ایک چادر بھی دی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post