بس ایک ہی راستہ ہے دنیا کو زیر کرنے کا

0

ووٹ کے ذریعے ایک نئی مملکت کا قیام دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ تھا۔ برصغیر کے مسلمان انگریز اور ہندوؤں کی غلامی سے آزادی چاہتے تھے۔ آزادی تو برصغیر کو متحد رکھ کر بھی مل سکتی تھی، مگر ایک خود مختار قوم کا تصور اس میں نہیں تھا۔ اس کے لئے دنیا کے جغرافیہ میں تبدیلی ناگریز تھی۔ یہ الگ بات کہ جہاں پاکستان بن رہا تھا، وہاں کسی صوبے میں مسلم لیگ کی حکومت نہیں تھی۔ یہ عجیب ماجرہ ہے کہ پاکستان آزاد تو ہوگیا، مگر نو برس تک خود مختاری اسے نصیب نہ ہوئی اور تاج برطانیہ کی غلامی کا طوق گلے میں پڑا رہا۔ 56ء کا دستور بنا۔ اس کے تحت 58ء میں انتخابات ہونا قرار پائے تو ایک فرد ایوب خان نے آئین کو ٹھوکر پر رکھا اور اپنی بادشاہی کا اعلان کیا۔ اب یہ بات تحقیق طلب ہے کہ وہ قوم اور اس کی قیادت کہاں تھی اور اس اقدام کے آڑے کیوں نہ آئی؟ جو انگریز اور ہندو کے سامنے سینہ سپر ہوگئی تھی۔ ایوب خان نے ’’ایبڈو‘‘ کے تحت سیاستدانوں کو یہ اختیار دیا تھا کہ یا وہ رضا کارانہ طور پر پانچ برس کے لئے سیاست سے دستبردار ہوجائیں یا عدالتوں کا سامنا کریں۔ پاکستان بھر میں صرف جناب حسین شہید سہروردی تھے، جنہوں نے عدالت کا سامنا کیا۔ یہ ایک عبرتناک کہانی ہے۔ اس کو جزیات کے ساتھ بیان کرنا تو ضروری ہے۔ مگر اس کے لئے گہری تحقیق لازم ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ابتداء ہی سے سیاسی جماعتوں کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی۔ اب بھی سیاست پر بالادستی نہیں کی ہے۔
بہرحال خدا خدا کرکے یحییٰ خان کے دور میں عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت تھی جو کبھی اقتدار میں نہیں رہی تھی۔ اس کے قائدین اور کارکن پاکیزہ کردار، کھرے اور سچے لوگ تھے ۔ سید ابو الاعلیٰؒ پر کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ ان کے ناقدین نے انہیں زندگی بھر معاف نہیں کیا۔ خدا کے اس برگزیدہ بندے نے بھی جواب میں کسی کے خلاف ایک لفظ نہ کہا۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ کا جماعت اسلامی اور حضرت مولاناؒ خاص موضوع تھا۔ ایک محفل میں اخبار نویسوں نے ہزاروی صاحب سے دریافت کیا کہ کوئی معافی ہو سکتی ہے؟ تو ہزاروی صاحب کا کہنا تھا مودودیؒ سے کہیں کہ وہ اپنی تمام کتابیں دریا برد کر دیں۔ دریافت کیا گیا کہ جواب میں وہ بھی آپ سے یہی مطالبہ کریں؟ تو ہزاروی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق ہاتھ پر ہاتھ مار کر فرمایا ’’میں نے کچھ لکھا ہی نہیں۔‘‘ یہ تھے سیدؒ کے مخالفین۔
بہرحال 70ء کے انتخابات کا غلغلہ ہوا تو جماعت اسلامی کا ’’شوکت اسلام‘‘ جلوس نکلا۔ پورے ملک میں دنیا حیران رہ گئی۔ سڑکیں انسانوں سے بھر گئیں۔ جوان بوڑھے گھروں سے نکل پڑے۔ یہ صورت حال دیکھ کر انگریزی جانشین بیورو کریسی خوف زدہ ہوگئی۔ یہ ون ووٹ ون مین کے تحت پہلے انتخابات تھے، جو وطن عزیز کے لئے خنجر بے نیام ثابت ہوئے۔ ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ کس نے لگایا؟ اس کا انجام کیا ہوا؟ یہ تاریخ کے المناک واقعات ہیں۔ اور پاکستان سے محبت، لگاؤ اور لگن کی جو سزا جماعت اسلامی اور پاکستان کی حمایت کرنے والے ’’بہاری‘‘ وہاں بھگت رہے ہیں، اب تو اس پر آواز اٹھانے والا بھی کوئی نہیں۔ اندرا گاندھی کے غلام زادے کی بیٹی حکمران ہے۔ انتخاب میں ووٹ تو عوام ڈالتے ہیں، مگر نتائج کوئی اور مرتب کرتا ہے۔ حالیہ انتخابات پر بھی دھاندلی کا الزام تو ہے، مگر حزب اختلاف نے ماضی کی طرح تحریک چلانے سے گریز کیا اور ملک کو افراتفری سے بچایا، تاہم وفاق میں قائد حزب اختلاف کی گرفتاری بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ یہ عجیب بات ہے کہ احتساب صرف حزب اختلاف کی جماعت کا ہو رہا ہے۔ خطرے میں حکومت بھی ہے، اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں قربت ہوجائے تو تبدیلی کوئی دشوار کام نہیں ہوگا۔ کوئی احمق ہوگا جو اپنی حکومت کی ناکامی کی دعا کرے۔ ووٹ ڈالتے وقت کون کس کا حامی ہے اور کون کس کا مخالف ہے، انتخاب کے بعد یہ بات بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب عمران خان تحریک انصاف کے نہیں، پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ ان کے انتخابی منشور پر عملدرآمد ہی کھرے کھوٹے کا فیصلہ کرے گا، بصورت دیگر دمادم مست قلندر ہونا بھی کچھ دشوار نہیں۔
بس ایک ہی راستہ ہے دنیا کو زیر کرنے کا جیتنے کا
یہ جتنی پر پیچ ہوتی جائے اسی قدر سہل و سادہ ہو جا
یہ میرا ذمہ کہ خود تیری منزلیں تعاقب کریں گی تیرا
بس ایک محمل کو دیکھ اور بے نیاز ہر رفت و جادہ ہو جا
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More