امریکی جھٹ بھیّوں کی جگالی

0

امریکا کے قائم مقام ڈپٹی سیکریٹری خارجہ ہیزی انشیر نے واشنگٹن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان کے طویل اور قلیل فاصلے تک میزائل لانچ کرنے کی صلاحیت اور بڑھتے ہوئے ایٹمی ذخیرے پر تشویش ہے۔ امریکی پالیسی ساز اداروں نے بھی پاکستان کے دفاعی ہتھیاروں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ افغان پالیسی میں تبدیلی اور علاقائی امن تک پاکستان پر دبائو جاری رکھیں گے اور یہ ہماری حکمت عملی کا ایک اہم جز ہے۔ ہمارے خیال میں امریکا کی ایشیائی حکمت عملی کے مطابق پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا خود اس کے مفاد میں بھی ہے۔ پاکستان کے خلاف یہ دھمکی آمیز بیان امریکی صدر یا دفاع و خارجہ کے کسی باقاعدہ وزیر کا نہیں، بلکہ ڈپٹی سیکریٹری خارجہ ہیزی انشیر کا ہے، جبکہ وہ اپنی حیثیت میں محکمہ خارجہ کے مستقل سیکریٹری (وزیر) ہیں نہ ڈپٹی سیکریٹری، بلکہ قائم مقام ہیں۔ ڈپٹی سیکریٹری کے آتے ہی ان کی قائم مقامی ختم ہو جائے گی۔ اہل وطن کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی اور رویئے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ حسب سابق و روایت ہر امریکی ایرا غیرا نتھو خیرا جب چاہتا ہے منہ کھولتا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ خود کو پاکستان کے کسی اعلیٰ ترین عہدیدار سے بھی بڑا اور اہم تصور کرتا ہے اور یہ نتیجہ ہے ہمارے حکمرانوں کی غلامانہ ذہنیت کا جو آزادی کے ستر سال بعد بھی اپنی نااہلی اور بدعنوانی کے باعث ملک کو ترقی دینا تو درکنار، اس کی وہ ساکھ بھی باقی نہ رکھ سکے جو بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ افغانستان پر حملہ کر کے امریکا سترہ سال سے خطے میں بدامنی اور دہشت گردی کا سبب بنا ہوا ہے، جبکہ پاکستان نے افغانستان سمیت پورے جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اس کے ستر ہزار سے زائد شہری اور فوجی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں اور معاشی نقصانات کا تو کوئی حساب ہے نہ کتاب۔ امریکی و اتحادی فوجیوں کی نقل و حمل اور ان کے سامان حرب کی ترسیل کے دوران پاکستان کی اکثر شاہراہیں اور عمارتیں برباد ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے پاکستان کو کھربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ امریکا نے کولیشن سپورٹ پروگرام کے تحت جو رقوم فراہم کیں، وہ پاکستان کے اخراجات کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اس کے باوجود امریکی انتظامیہ کے ارکان آئے دن پاکستان پر احسان جتاتے رہتے ہیں کہ ہم نے اسے بڑی امداد فراہم کی ہے۔ پاکستان کی اتنی قربانیوں کے باوجود امریکی چھٹ بھیّوں کی یہ جگالی ختم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مراکز قائم ہیں، جن کی وجہ سے افغانستان عدم استحکام سے دوچار ہے۔ اول تو سات سمندر پار سے آکر افغانستان میں امریکی مداخلت بے جا کا کوئی جواز نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان تو دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پا چکا ہے۔ امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا زعم ہے، لیکن سترہ سال سے افغانستان میں جھک مارنے کے باوجود وہاں وہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کو کابل میں بھی تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے اور اس ناکامی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈال کر عالمی برادری کو فریب دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستان کے میزائل اور ایٹمی پروگراموں پر تو امریکا اکثر و بیشتر تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ لیکن وہ اسرائیل کو نہ صرف خود اسلحہ فراہم کرتا ہے، بلکہ دوسرے ممالک کو بھی اس کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بھارت اور اسرائیل دونوں مسلم دشمن ملکوں کی جارحیت اور ریاستی دہشت گردی کی کھل کر حمایت کرتا ہے۔ اگر امریکی دست شفقت ان کے سروں پر نہ ہو تو وہ فلسطین اور کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم رکھنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں اتنے آگے نہ بڑھ سکیں۔ واحد عالمی سپر پاور کی حیثیت سے یہ امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی فلسطینیوں اور کشمیریوں کے بارے میں قراردادوں پر عمل درآمد کرائے۔ افغان پالیسی میں تبدیلی اور علاقائی امن کے قیام تک پاکستان پر دبائو جاری رکھنے کو امریکی پالیسی کا اہم جز قرار دے کر ہیزی انشیر نے خود ہی اعتراف کر لیا ہے کہ وہ خطے میں قیام امن کے نام پر سترہ سال سے اپنی افواج اور جدید اسلحے کے ساتھ موجودگی کے باوجود ناکام رہا ہے۔ آج بھی اہل پاکستان کا مؤقف یہی ہے کہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت امریکا اور اس کے اتحادی جنوبی ایشیا سے اپنے منحوس قدم لے کر واپس چلے جائیں تو یہاں امن قائم اور برقرار رکھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پاکستان کے مفاد میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ امریکا کو نہیں۔ خود ہمیں کرنا ہے، بشرطیکہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں جرأت ایمانی کی کوئی رمق پیدا ہو جائے۔
ایران سے برادرانہ شکوہ
ایران کو پاکستان اپنا برادر مسلم اور پڑوسی ملک قرار دے کر جذبہ خیر سگالی کا اظہار کرتے نہیں تھکتا۔ جس کا مثبت ردعمل ایران کی جانب سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ پھر وہ کون لوگ ہیں، جو آئے دن ایران سے پاکستانی سرحدوں کے اندر گولا باری کرتے ہیں اور انہیں روکنے میں ایرانی حکومت ناکام رہتی ہے۔ گزشتہ روز بھی چاغی کے پاک و ایران سرحدی علاقے تالاپ میں ایرانی حدود سے بیک وقت دو درجن کے قریب مارٹر گولے فائر کئے گئے، جو پاکستانی سرحد کے دو کلو میٹر اندر آکر گرے۔ شکر ہے کہ کوئی انسانی جانی نقصان تو نہیں ہوا، لیکن متعدد مویشی ہلاک ہو گئے اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ ایرانی فوج نے سرحد کے قریب کئی پاکستانی شہریوں کو کھیتی باڑی سے بھی روک دیا ہے۔ اہل علاقہ نے صحافیوں کو مارٹر گولوں کے شیل دکھائے اور سرحد پار سے گولا باری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ سے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ دونوں برادر مسلم ملکوں کے برادرانہ تعلقات متاثر ہونے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More