حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

قسط نمبر36
سید ارتضی علی کرمانی
حضرت پیر صاحب ؒ کی عادات مبارکہ:
گھڑ سواری: آپؒ حکماء کے مشورے پر بعد از عصر گھڑ سواری کی غرض سے نکلا کرتے تھے اور دیہات میرا بادیہ اور میراکو بلکہ بعض اوقات قصبہ راولپنڈی اور رکھ ٹوپی کے مضافات سے ہو کر عشاء کے بعد واپس تشریف لایا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ کسی خادم کو کبھی ساتھ نہیں لے جاتے تھے۔
سید صدیق شاہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ
’’ایک مرتبہ میں گائوں سے گولڑہ شریف آ رہا تھا، جب چکوال پہنچا تو کسی کی زبانی سنا کر حضرت نے ایک گھوڑی خرید فرمائی ہے۔ میرے دل میں وقتی طور پر خیال گزرا کہ میرے شیخ تو ولی کامل ہیں، انہیں دنیا داریوں سے کیا غرض۔ جب حاضر خدمت ہوا تو حضرتؒ خود بخود فرمانے لگے: شاہ صاحب جب اطباء نے مجبور کیا ہے کہ گھوڑے کی سواری کا التزام کیا جائے۔ اس ضرورت کے پیش نظر میں نے گھوڑی خریدی ہے، چنانچہ میں اپنا وہ دلی خیال یاد کر کے بے حد نادم ہوا۔
اس کے بعد حضرت صاحب ؒ کے اصطبل میں بہترین گھوڑے آتے رہے، آپ کی شہسواری کا بھی اپنے والد محترم اجی شاہ صاحب ؒ کی طرح یہ عالم تھا کہ سرکش سے سرکش جانور بھی رام ہو جاتے تھے۔ ایک بار ملک احمد خانہ ٹوانہ نے ایک بیش قیمت گھوڑی جس کی قیمت 4 ہزار روپے تھی، آپ کی نذر کی۔ آپ سیال شریف سے رخصت ہو رہے تھے کہ یہ گھوڑی آپ کے سامنے لائی گئی۔ گرمیوں کا موسم تھا، آپ نے سوار ہو کر چھتری مانگی، ملک صاحب نے عرض کی کہ حضرت گھوڑی نئی ہے، چھتری کو شاید برداشت نہ کر سکے اور ڈرنے لگے۔ آپؒ نے فرمایا کہ چھتری بند کر کے مجھے دے دو۔ پھر آپ نے چھتری کھول کر گھوڑی کو دوڑانا شروع کیا اور موضع مانگو وال جھک تک دوڑاتے لائے۔ گھوڑی نے بدکنے کا نام بھی نہیں لیا۔
آپؒ کا ایک گھوڑا حضوری کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس نام کی وجہ یہ تھی کہ جب تک آپؒ اس پر سوار ہو کر وظائف پڑھتے رہتے تو یہ آہستہ فرام رہتا اور جونہی وظائف سے فارغ ہوتے تو یہ گھوڑا ایک لخت تیز رفتار ہو جاتا۔ ایک روز آپ کی چادر نیچے گر گئی، گھوڑا اگر قدم آتے رکھتا تو اس پر پڑتا۔ گھوڑا یکدم رک گیا اور ہانکنے پر بھی آگے نہ بڑھا۔
حضرت صاحب ؒ نے خادم سے پوچھا کہ یہ گھوڑا آگے کیوں نہیں بڑھ رہا، دیکھو یہ کیوں رک گیا ہے تو اس نے دیکھا کہ آپ کی چادر اس کے آگے گری پڑی تھی۔ یہ تھا گھوڑے کا پاس ادب۔ سچ ہے کہ جس کا خدا ہے اس کا سب کچھ ہے۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہ صاحبؒ کے ساتھ حضرت دیوان سید محمد صاحب سجادہ نشین حضرت بابا فرید گنج شکر بے حد عقیدت و الفت رکھتے تھے۔ انہوں نے حضرت صاحبؒ کیلئے ایک گھوڑا مخصوص کر رکھا تھا، تاکہ اس پر صرف آپ ہی سواری کریں۔ حالانکہ آپؒ کی آمد پاک پتن شریف سال میں ایک مرتبہ بغرض حاضری عرس ہوا کرتی تھی اور یوں پورا برس اس گھوڑے پر کوئی دوسرا سواری نہ کرتا۔
پورا سال گھوڑے کی پیٹھ پر زین نہ کسنے کی وجہ سے گھوڑا سرکش ہو جاتا تھا۔ اس لئے احتیاط کے طور پر عرس سے تھوڑا عرصہ قبل دیوان صاحب اپنے برادر عزیز میاں غلام رسول صاحب سے فرماتے: اگرچہ مجھے یقین ہے کہ پیر صاحبؒ اس کی سواری میں کوئی بھی تکلیف محسوس نہیں کریں گے، پھر بھی آپ اس کو کچھ رواں کر لیں۔
ایک مرتبہ حضرت صاحبؒ اس گھوڑے پر سوار تھے کہ موتی محل کے قریب وہ کچھ اس انداز میں کودا کہ زین کا
’’تنگ‘‘ نیچے سے ٹوٹ گیا اور آپ زین سمیت اوپر کی جانب اچھلے۔ لوگوں میں شور بلند ہوا اور وہ یہ سمجھے کہ آپ گر گئے۔ ایک شخص دوڑتا ہوا دیوان صاحب کی خدمت میں اطلاع دینے پہنچا، مگر دیوان صاحب نے فرمایا کہ تم غلط کہتے ہو، پیر صاحب ؒ نہیں گر سکتے۔
یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آپؒ بھی تشریف لے آئے۔ آپ ؒ نے باتیں سن لیں تھی، فرمانے لگے کہ دیوان صاحب یہ غلط نہیں کہہ رہا۔ میں واقعی زین سمیت گھوڑے سے کافی اٹھ گیا تھا، لیکن پھر حق تعالیٰ کے فضل سے بمعہ زین گھوڑے کی پشت پر آ کر مستقر ہو گیا۔ دیوان صاحب عموماً سال میں ایک دو اچھے گھوڑے آستانہ عالیہ گولڑہ شریف بھجوا دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں موٹر کاریں اس قدر عام نہیں ہوئیں تھیں۔ اس لئے اصطبل میں نر اور مادہ گھوڑوں کی کثرت تھی، مگر اس قدر زیادہ جانور اکٹھے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے لڑتے دیکھے گئے اور نہ ہی شور و غل بلند ہوتا تھا۔ دیکھنے والے کہتے تھے کہ یہ سب آستانہ عالیہ کی خصوصیت ہے۔
معاندین سے سلوک
یہ تو بات سبھی کو معلوم ہے کہ حضرت اپنے محبین کے ساتھ ہمیشہ مربیانہ سلوک فرمایا کرتے تھے، مگر آپ کا سلوک معاندین کے ساتھ بھی حد درجہ اچھا ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب حضرت صاحب ؒ کی مجلس میں حاضر ہوئے اور ایک روپیہ نذر رکھ کر بیٹھ گئے۔ جب زر بردار نذر اٹھانے کیلئے آیا تو آپؒ نے خلاف عادات اسے فرمایا کہ اس روپیہ کو پڑا رہنے دو۔ جب تمام لوگ اپنی حاجتیں پیش کر چکے تو حضرت صاحب ؒ نے ان صاحب کو بلایا اور دریافت کیا کہ آپ کیسے آئے ہیں۔ انہوں نے عرض کی فلاں تحصیلدار جو آپ کا معتقد ہے، اس کی طرف سفارش لکھوانا ہے۔ آپ نے کاغذ قلم منگوایا اور اپنے دست مبارک سے تحصیل دار کی جانب خط لکھ کر ان صاحب کو عنایت فرما دیا۔
اسی کے ساتھ یہ ہدایت بھی کر دی کہ یہ خط تحصیلدار صاحب کو ان کے گھر پر پہنچائی جائے کچہری میں نہیں۔ جب وہ صاحب رخصت ہونے لگے تو آپ ؒ نے فرمایا کہ بھائی اپنا روپیہ بھی لیتے جائو۔ انہوں نے بہت معذرت کی مگر حضرت صاحب ؒ کے بے حد اصرار پر ان کو روپیہ لینا ہی پڑا۔ ان کے چلے جانے کے بعد جب حضرت صاحب سے پوچھا گیا کہ یاحضرت اس شخص کا روپیہ کیوں لوٹایا گیا ہے تو فرمایا کہ یہ شخص ہمیشہ مجھے برے الفاظ سے یاد کیا کرتا ہے اور معاند ہے۔ اب ضرورت کے وقت اس نے یہ خیال کیا ہو گا کہ روپیہ پیش کر کے سفارش نامہ لکھوانے میں آسانی رہے گی، میں نے اسی لئے روپیہ بھی اس کو واپس لوٹا دیا اور سفارش نامہ بھی خود ہی لکھ دیا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More