سب سے بڑا غم

0

ماہ صفر چار ہجری میں بیئر معونہ کا واقعہ پیش آیا، اس کا قصہ اس طرح ہے کہ عامر بن مالک جس کی کنیت ابوبراء تھی، آنحضرتؐ کے پاس آیا اور ہدیہ پیش کیا، آنحضرتؐ نے اس کا ہدیہ قبول نہیں کیا اور اس کو اسلام کی دعوت دیدی، اس نے قبولیت اسلام پر خاموشی اختیار کی اور آنحضرتؐسے کچھ قرأ مانگ لئے تاکہ وہ اہل نجد کو دعوت دیں، ممکن ہے وہ مسلمان ہو جائیں۔
آنحضرتؐ نے خدشہ ظاہر فرمایا کہ نجد والے میرے صحابہؓ کو قتل کردیں گے۔ ابوبراء نے کہا کہ میں ان کی حمایت و حفاظت کی ضمانت لیتا ہوں۔ آنحضرتؐ نے ستر صحابہ روانہ کئے، جو قراء کے نام سے مشہور اصحاب صفہ میں سے تھے، قطعہ منتظرہ کے طور پر رہتے تھے، یعنی ضرورت پڑنے پر جہاد کے محاذ پر جا کر لڑتے تھے، یہ پاکباز جماعت کے لوگ تھے، دن کو لکڑی لاکر فروخت کرتے تھے اور صفہ کے طلبہ کے کھانے کا انتظام کرتے تھے۔
جب یہ حضرات، ابوبراء کے ساتھ بیئر معونہ کے مقام پر پہنچ گئے تو وہاں ایک شیطان صفت آدمی عامر بن طفیل نے بنی سلیم اور دیگر قبائل رعل و ذکوان اور عصیہ سے مدد مانگی اور سب نے مل کر ان ستر نہتے صحابہ کرامؓ کو شہید کر ڈالا، صرف ایک صحابی زخمی ہو کر بچ گئے اور مدینہ طیبہ واپس آگئے۔ رسول اکرمؐ کو جب اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپؐ بہت زیادہ غمگین ہوئے اور وفات تک آپ کو یہ درد رہا، چنانچہ حضرت انسؓ نے آنحضرتؐ کے غم اور درد کو اس طرح بیان کیا ہے: ’’میں نے نبی کریمؐ کو بیئر معونہ کے شہداء پر جنتا غمگین دیکھا، کسی معاملے میں نہیں دیکھا۔‘‘
چنانچہ رسول اکرمؐ نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں ان قبائل کا نام لے کر بددعا فرمائی، جس کو قنوت نازلہ کہتے ہیں، پھر حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو بددعا سے منع کر دیا۔(تحفۃ المنعم، شرح صحیح مسلم، از مولانا فضل محمد یوسفزئی)
حق بات کہنے کے اثرات!
ایک بادشاہ نے نہایت ہی شاندار محل تعمیر کرایا، اس محل کی شان و شوکت کا یہ عالم تھا کہ اس کی چمک دمک سے آنکھیں خیرہ ہو رہی تھیں، حسن و جمال کی تکمیل کے سارے سامان اس میں مہیا تھے۔ زیبائش سے مزین و مرصع، ہر ہر گیٹ پر اسلحے سے لیس اعلیٰ قسم کی وردیاں پہنے ہوئے فوجی دستے کھڑے ہوئے شاہی جاہ و جلال کا انوکھا منظر پیش کر رہے تھے۔
محل کے ارد گرد تماشائیوں کا ایک زبردست ہجوم داد تحسین دے رہا تھا۔ ہر شخص کی زبان پر مدح و ستائش کا کلمہ جاری تھا، بادشاہ تمسخر و غرور کے لہجے میں ہر ایک سے پوچھتا تھا کہ محل میں کوئی عیب یا خامی تو نہیں ہے؟
کس کی مجال تھی کہ عیب نکالتا، ہر ایک تعریف کے پل باندھتا اور زمین و آسمان کے قلابے ملاتا اور یہی کہتا کہ اس میں نہ کوئی عیب ہے نہ خامی، محل اور محل کا ساز و سامان بے نظیر و بے مثال ہے۔
مگر اس جم غفیر میں چند ایسے ہوشمند نکل آئے، جنہوں نے ایک نہیں، بلکہ دو عیوب نکال دیئے۔ انہوں نے کہا، ہاں! یہ محل واقعی اپنی شان کا انوکھا محل ہے، مگر اس میں دو عیب ہیں اور یہ عیب اس میں برقرار رہیں گے۔
بادشاہ کے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ایک عیب تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، محل کا حسن و جمال ماند پڑتا جائے گا، اس کے استحکام میں ضعف، بوسیدگی پیدا ہوتی جائے گی، اس کو زوال آتا رہے گا۔
اور دوسرا عیب جو اس سے بھی بڑا ہے، وہ یہ ہے کہ اس کا مالک اس کو یوں ہی چھوڑ کر بڑی حسرت و یاس کے ساتھ عالم آخرت کی طرف روانہ ہو جائے گا۔ کہتے ہیں کہ جب حق بات، حق نیت سے، حق اور احسن طریقے سے کہی جائے تو وہ ضرور اثر کرتی ہے، یہاں بھی یہی کچھ ہوا، بادشاہ نے جب ان لوگوں کی یہ باتیں سنیں تو گہری سوچ میں پڑ گیا اور سوچنے لگا کہ کیا میرا یہ شاندار محل کسی اور کے قبضے میں پائیدار ہے تو اس سے دل لگی اور وابستگی کے کیا معنی؟ اور سوچتے سوچتے اچانک اس کے دل میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ زندگی کا وہ رخ اختیار کیا جائے، جس میں حسرت و یاس کا گزرنہ ہو، دائمی عزت و سرفرازی نصیب ہو۔
یہ خیال آتے ہی بادشاہ کی دنیا بدل گئی، یہ خوبصورت محل مٹی کا ڈھیر معلوم ہونے لگا اور اس نے اسی وقت اس کو خیر باد کہہ دیا اور فکر آخرت میں لگ گیا۔ اب صرف اس زندگی کی فکر تھی جو ابدی و لازوال ہے، جہاں بقاء ہی بقاء ہے، فنا ہرگز نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More