حق تعالیٰ پر توکل کرنا، ان بڑے اسباب میں سے ہے جن کے ذریعے ضرورتوں کو طلب کیا جاتا ہے۔ توکل سے مراد یہ ہے کہ مخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہو، یعنی اپنے تمام کاموں کو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کے سپرد کردینا۔ جیسے حضرت ابراہیمؑ کا قول ہے، جب ان کو نمرود کی آگ میں ڈالے جانے کے وقت حضرت جبرئیلؑ دکھائی دیئے اور حضرت ابراہیمؑ سے کہنے لگے: ’’کیا آپ کو میری کوئی ضرورت ہے، کیا میں آپ کے کسی کام آسکتا ہوں؟‘‘ حضرت ابراہیمؑ نے جواب میں فرمایا: ’’جہاں تک آپ کی مدد کا تعلق ہے تو مجھے آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
خدا کا خوف و ڈر، اس کی عبادت اور اس کے بندوں پر احسان کرنا یہ بھی غم اور مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم طریقہ ہے۔
سات مرتبہ اس آیت کا پڑھنا:
ترجمہ: ’’(اے میرے رب!) مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء آیت:83)
صرف حق تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنا۔ نیز بندہ اس بات کا اعتراف کر لے کہ وہ بذات خود ظالم ہے اور حق تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا۔ گناہوں اور برے کاموں سے بچنا بھی غموں سے نجات دلاتا ہے۔ قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کرنا اور اس کے معانی میں غور و فکر کرنا۔ صرف حق تعالیٰ ہی سے دلی تعلق رکھنا۔ ہر جائز کام کرنے سے پہلے یہ کہنا:
ترجمہ: ’’اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! تیری رحمت سے میں مدد چاہتا ہوں۔‘‘
ان سب باتوں کے جاننے کے بعد سمجھ لیجئے کہ حق تعالیٰ عنقریب اپنی ایسی مہربانی سے آپ پر رحم کرے گا جو کہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اس کی کشائی قریب ہے اور بہت ہی قریب ہے۔ کیا صبح قریب نہیں ہے؟
میرے مسلمان بھائیو! یاد رکھو، حق تعالی جب بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، تاکہ وہ اس کی پکار سنے۔
مصیبت جتنی بھی سخت ہوتی ہے (کبھی نہ کبھی) دور ہو ہی جاتی ہے۔
اے مصیبت! اگر تم سخت ترین بھی ہوجاؤ تب بھی کشادگی ضرور آئے گی۔
سب سے بہترین عبادت کشائش کا انتظار کرنا ہے اور آزمائش کی سختی کے بقدر اور امید کے دم توڑ دینے اور تدبیروں کے جواب دیئے جانے کے بعد حق تعالیٰ کشائش بھیجتے ہیں۔
یاد رکھو! بندے کو جو چیز ناپسند ہے، ممکن ہے کہ وہ اس چیز سے بہتر ہو جو اسے پسند ہے۔ کیوں کہ جو چیز اسے ناگوار ہوتی ہے وہ اسے دعا پر ابھارتی ہے اور جو چیز اسے پسند ہوتی ہے، وہ اسے دعا سے غافل کر دیتی ہے۔
یاد رکھو ’’پریشانی پر صبر کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اور بھروسہ کرنے والے کے یقین پر کبھی پانی پھرتا اور جو صبر کو پاتا ہے، صبر اسے پالیتا ہے اور جس نے صبر پالیا، وہ مراد کو پہنچ گیا کہ صبر کشائش کی کنجی ہے اور مصیبت کی شدت کے بعد ہی آسائش آتی ہے۔‘‘
بسا اوقات ناگوار چیز میں محبوب چیز پوشیدہ ہوتی ہے اور پسندیدہ چیز میں ناگوار چیز پوشیدہ ہوتی ہے، کتنے ہی لوگ ایسی چیز پر رشک کرتے ہیں، جو ان کیلئے بیماری کا سبب ہے اور ناپسند کرتے ہیں ایسی چیزکو، جو اُن کے لیے شفاء کا سبب ہے۔
یاد رکھو ’’تنگی کے لمحہ بہ لمحہ گزرنے سے آسانی آتی ہے۔ شاید کسی پریشانی پر صبر کرنے سے تمہیں کوئی نیک راہ مل جائے اور کسی ظاہری نقصان دہ چیز سے فائدہ مند چیز حاصل ہوجائے۔ کیوں کہ جھاگ کے نیچے شفاف دودھ ہی ہوتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ بندے کو آزمائش میں
ڈالتا ہے جس کے ذریعے سے ہلاکت سے بچا لیتا ہے، سو وہ آزمائش نعمت سے بھی بڑھ کر ہوجاتی ہے۔جو چیز تقدیر میں لکھی جاچکی ہے وہ ہوکر ہی رہتی ہے اور جو شخص تقدیر اور قضاء پر راضی نہیںرہتا، اس کو کبھی زندگی کا لطف حاصل نہیں ہوتا۔مسلمانوں پر پریشانیاں حق تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور آزمائش نیک لوگوں پر ہی آتی ہے جو ہمیشہ نہیںرہتی تو خوش خبری ہے، اس شخص کے لیے جو آزمائشوں پر صبر کرے۔ آزمائش گناہوں سے پاکی ہے، غفلت سے بیداری ہے، صبر کے ذریعے ثواب تک رسائی ہے اور نعمتوں کی یاد دہانی ہے۔ کشائش اور راحت کا مزہ خدا پر پختہ یقین، اس کی رضا اور صبر کرنے میں پوشیدہ ہے اور دکھ، تکلیفیں اور غم بے صبری اور خدا کی ناراضگی میں پوشیدہ ہیں۔ آزمائش بادل ہے جو آخر کار چھٹ جاتا ہے اور پھر تنگی اور پریشانی کے بعد کشادگی ہی کشادگی آتی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ: آیت: 156 (ترجمہ: ہم سب خدا ہی کیلئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے) چند ایسی بڑی بنیادی باتوں پر مبنی ہے کہ اگر بندہ اس کوجان لے تو مصیبت کے وقت اس کی تسلی کا ذریعہ بن جائے۔
ان میں پہلی بات یہ ہے کہ بندہ حق تعالیٰ کو اپنی امیدوں کا محور بنالے جو اس کا حقیقی پروردگار ہے۔ حضور اقدسؐ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’جب کبھی کسی بندے کو مصیبت پہنچتی ہے، پھر وہ مذکورہ آیت پڑھے اور کہے خدایا! مجھے اس مصیبت کا اچھا بدلہ دیجئے اور مجھ سے جو چیز چھین لی گئی، اس کے بدلے مجھے اس سے بہتر چیز عنایت فرما دیجئے تو خدا تعالیٰ اس کو اس کی مصیبت کا اچھا بدلہ دیتے ہیں اور چھینی ہوئی چیز کا بہتر بدلہ عنایت فرماتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الرقم: 918)
تقدیر پر راضی ہو کہ جو مصیبت اور آزمائش آنی ہے، وہ کبھی ٹل نہیں سکتی۔ انسان اس بات کی طرف دھیان دے کہ حق تعالیٰ نے اس کے لیے اس مصیبت کا بہتر بدلہ تیار کر رکھا ہے، بشرطیکہ وہ صبر کرے اور راضی رہے۔
مصیبت کی آگ کو اہل مصائب کے ساتھ بیٹھ کر تسلی کی ٹھنڈک سے بجھائے، جس جگہ خوشحال لوگ ہوتے ہیں تو وہیں پر پریشان حال لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ اردگرد کے حالات کا جائزہ لے تو وہ کسی نہ کسی کو ضرور اپنے آپ سے زیادہ آزمائش میں مبتلا پائے گا جس سے اس کو تسلی ہوگی۔ وہ اس بات کو جان لے کہ جزع فزع کرنا مصیبتوں کو کم نہیں کرتا، بلکہ بڑھا دیتا ہے، درحقیقت یہ مرض کے بڑھنے کی علامت ہے۔
اس مصیبت پر اس کا صبر کرنا اور رب تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھنا، اسے جس خوشی اور سرور سے ہمکنار کرے گا، وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو اس مصیبت کے خاتمے کی صورت میں اس کو پیش آئے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭