جے آئی ٹی نے سندھ حکومت کی شکایت کردی-حکام طلب

0

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )جے آئی ٹی نے جعلی بینک اکاوٴنٹس کیس کی تحقیقات میں تعاون نہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں سندھ حکومت کی شکایت کردی۔سربراہ تحقیقاتی ٹیم نےدوسری پیشرفت رپورٹ میں عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ معاملہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر کے ایک کھرب روپے تک جا پہنچاہے۔54 ارب سے زائد رقوم کمپنیوں اور 47 ارب روپے عام افراد کے اکاوٴنٹس میں ڈالی گئیں۔36 کمپنیاں صرف اومنی گروپ کی ہیں۔فائدہ اٹھانے والوں تک پہنچ جائینگے۔صوبائی حکومت ریکارڈ فراہم نہیں کر رہی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف اختیار کیا کہ تعاون کیا جارہا ہے۔جے آئی ٹی نے 2008 سے 2018 تک 46 افراد کودیئے گئے معاہدوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ ان میں 6 کی مل سکیں۔ تمام سرکاری معاہدوں کی تفصیلات ایک جگہ موجودنہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سمیت تعاون نہ کرنے والے سیکریٹریز کو ریکارڈسمیت26 اکتوبر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئےانورمجید کواسپتال منتقل کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ تفصیلات کے مطابق پیر کو جعلی بینک اکاوٴنٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے پیشرفت رپورٹ پیش کی گئی۔جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقات کے دوران بڑا فراڈ سامنے آیا ہے، 54 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز 107 جعلی اکاوٴنٹس کے ذریعے کی گئیں جبکہ کئی کیسز میں اکاوٴنٹس محدود مدت میں کھول کر بند کر دیئے گئے۔چیف جسٹس نے احسان صادق سے استفسار کیا کہ کیا آپ بینیفشریز تک پہنچ جائیں گے۔جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جی امید ہے کہ بینیفشریز تک پہنچ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فالودہ بیچنے والے، رکشہ چلانے والوں کے جعلی اکاوٴنٹس کے ذریعے ٹرانزیکشنز کی گئیں،جبکہ 36 کمپنیاں صرف اومنی گروپ کی سامنے آئی ہیں۔جے آئی ٹی سربراہ نے جعلی اکاوٴنٹس کی تحقیقات میں سندھ حکومت کی جانب سے تعاون نہ کرنے کا الزام لگایا۔انہوں نے کہا کہ چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری آبپاشی اور سیکریٹری زراعت کی جانب سے تعاون نہیں کیا جارہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم شام تک سب کو بلا لیتے ہیں۔سندھ حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ حکومت کی جانب سے تعاون کیا جارہا ہے،جے آئی ٹی نے 2008 سے 2018 تک 46 افراد کو دیئے گئے معاہدوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔جے آئی ٹی کے سربراہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ جعلی اکاوٴنٹس سے شروع ہونے والا معاملہ انتہائی پیچیدہ منی لانڈرنگ کی شکل اختیار کر چکا ہے، معاملہ ایک کھرب روپے سے زائد کے حجم تک پہنچ چکا، پیچیدہ طریقوں سے عام افراد اور مرحومین کے اکاوٴنٹس میں رقوم منتقل کی گئیں، فالودہ فروش، رکشہ ڈرائیور کے اکاوٴنٹ میں اربوں روپے بھیجے گئے۔جے آئی ٹی سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ بعض افراد کی موت کے 2 سال بعد ان کے اکاوٴنٹس میں اربوں روپے ڈالے گئے، 47 ارب روپے عام افراد جب کہ 54 ارب سے زائد رقوم کمپنیوں کے اکاوٴنٹس میں ڈالی گئیں اور سندھ حکومت تحقیقات میں تعاون نہیں کر رہی، متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔جے آئی ٹی سربراہ کے بیان پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اپنے دلائل میں کہا کہ جے آئی ٹی ہم سے 2008 سے حکومت کا کیا ہر معاہدہ مانگ رہی ہے، جے آئی ٹی کے دیئے 46 ناموں میں سے صرف 6 معاہدے ریکارڈ میں دستیاب ہوسکے ہیں، یہ کسی کمرے کو رنگ کرانے کے معاہدے کی بھی کاپی مانگ رہے ہیں، سارے سرکاری کنٹریکٹس کا ریکارڈ ایک جگہ پر موجود نہیں۔ایڈووکیٹ جنرل کے موٴقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس ہفتے 26 تاریخ کو کراچی آوٴں گا، چیف سیکریٹری سمیت تعاون نہ کرنے والے تمام سیکریٹریز متعلقہ ریکارڈ سمیت حاضر ہوں، ریکارڈ نہ ملاتو دیکھیں گے کہ چیف سیکریٹری اور دیگر افسران کے خلاف کیا کارروائی بنتی ہے۔دوران سماعت انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجیدکو دل کا عارضہ ہے، جیل ڈاکٹر نے انہیں اسپتال بھیجنے کی استدعا کی ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھے سندھ کے کسی ڈاکٹر کی رپورٹ پر اعتبار نہیں، جسٹس ثاقب نثار نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کو پتہ ہے ایک صاحب کو پائلز ہے اور وہ اسپتال داخل ہو کر علاج کرا رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ وہ دن کو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں اور رات کو اس کے گھر میں ہوتے ہیں۔اومنی گروپ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید کو 1999 میں امریکہ میں دل کا اسٹنٹ ڈالا گیا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دل کی تکلیف ہے تو انہیں راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جائیں، اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ عدالت 77 سالہ شخص کی میڈیکل رپورٹ پر یقین نہیں کرتی؟عدالت نے انور مجید کو اسپتال منتقل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیوں یقین کریں وہ بندہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہے۔اومنی گروپ کے وکیل نے کہا کہ عدالتی حکم کی وجہ سے ان کا علاج نہیں کیا جا رہا، انورمجید کو اسپتال منتقل کیا جائے۔چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اندر ہو تو کمبل میں لیٹا رہتا ہے اور باہر ہو تو دفتر کے سارے کام کرتا ہے، انور مجید کی زندگی کو کوئی خطرہ ہے؟ وہ سندھ حکومت کا پیارا ہے، سندھ حکومت والے اس کا زیادہ خیال رکھیں گے۔جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ انور مجیدکو بہترین علاج مہیا کریں گے، راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے پاس سی ایم ایچ میں داخل کرا دیتے ہیں، کھربوں پتی لوگ ہیں، یہاں پچاس پچاس کنال کے سو گھر خرید سکتے ہیں، ابھی باہر جانے کی اجازت دے دوں تو بچے سے بڑے تک باہر چلے جائیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کا اسلام آباد سے علاج ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے، انور مجید کو اڈیالہ منتقل کر دیتے ہیں۔اومنی گروپ کے وکیل نے موٴقف اپنایا کہ انور مجید کی صحت سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ائیر ایمبولینس میں لے آتے ہیں اور ان کے علاج کیلئے ڈاکٹر بھی تعینات کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے بیمار افراد کا میڈیکل سی ایم ایچ سے کرا کر رپورٹ کراچی میں پیش کرنے کا حکم دیا جب کہ عدالت نے آئی جی سندھ کلیم امام کو بھی 26 اکتوبر کو کراچی میں سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔اومنی گروپ کے وکیل شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ اومنی گروپ کے بینک اکائونٹ کھولے جائیں، ملازمین کو تنخواہیں دینی ہوتی ہیں، جو اکاوٴنٹس منجمد ہوئے وہ جعلی نہیں تھے، بینک اکاوٴنٹس منجمد کرنے سے معیشت اور ملک کا نقصان ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 91 ارب روپے کا پتہ چلنے تک ملیں نہیں کھولیں گے۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر آئی جی سندھ کو بھی طلب کرلیا۔واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔جس کے بعد جعلی اکاوٴنٹس کیس اور 35 ارب روپے کے فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔تاہم عدالتی فیصلے پر نگراں حکومت نے نام نکال دئے تھے۔بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاوٴنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More