آخر کار معاملات اسی ڈھب پر آگئے جس کا خدشہ تھا۔ کراچی میں ٹریفک پولیس کی چیرہ دستیوں نے کام دکھانا شروع کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں ایک غریب حساس رکشہ ڈرائیور جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی جان گنوا بیٹھا۔ جس ٹریفک اے ایس آئی کی زیادتی اور رشوت طلبی نے رکشہ ڈرائیور کو خود سوزی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا، اس کے ماتھے پر کوئی ایسی شکن نہیں تھی، جس سے اندازہ کیا جا سکے کہ اسے اپنے عمل پر کسی قسم کی ندامت کا سامنا ہو۔
حافظ جی نے ٹریفک اے ایس آئی حنیف کو ٹیلی ویژن کے ایک رپورٹر کو بیان ریکارڈ کراتے دیکھا اور سنا، جس میں وہ خود کو ذمہ دار، قانون کا رکھوالا اور رکشہ ڈرائیور کو بے حس اور قانون شکن باور کراتا نظر آیا اور پھر حافظ جی کو یہ جانکاہ خبر بھی ملی کہ ٹریفک اہل کار کے رویئے سے دل برداشتہ ہوکر خود سوزی کرنے و الا رکشہ ڈرائیور خالد کراچی پولیس کی چیرہ دستیوں کا مقدمہ لئے اپنے رب کی عدالت میں جاپہنچا۔ یعنی رکشتہ ڈرائیور خالد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا۔
ایک ہنستا بستا گھرانہ محض ایک پولیس اہلکار کو معمولی رقم بطور رشوت نہ دینے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ بے شک رکشہ ڈرائیور خالد کا اقدام خودسوزی اس کا درست عمل نہ تھا، مگر ان محرکات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، جن کے سبب ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ اس حوالے سے آئی جی سندھ، آئی جی کراچی اور ڈی آئی جی ٹریفک کراچی سمیت متعلقہ محکمے کے تمام ہی ذمہ داران جواب دہ ہیں، اپنے رب کو بھی اور عوام الناس کو بھی، کیوں کہ انہیں تنخواہوں سمیت تمام مراعات انہی عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہیں۔ ان افسران و اہل کاروں کی لازمی ڈیوٹی عوام کو تحفظ فراہم کرنا، ان کی سہولیات کا خیال رکھنا اور قوانین پر بلا تفریق عمل کرانا ہے، لیکن کراچی کی سڑکوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو جائے گا کہ پولیس کیا کر رہی ہے۔ ریاستی تحفظ کے چھتر سائے، وردی اور اختیارات کے زعم میں شہریوں کی تذلیل کوپولیس نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔
حافظ جی کو مزید صدمہ اس بات کا ہے کہ جس روز رکشہ ڈرائیور خالد نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اسپتال میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی، عین اسی روز واقعے میں ملوث ٹریفک پولیس کے زیر حراست اے ایس آئی حنیف کو جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے ضمانت پر رہائی بھی مل گئی اورکیوں نہ ملتی کہ ملوث ملزم بھی محکمے کا اور تفتیشی افسر بھی پیٹی بند بھائی۔ رہی بات عدالت کی تو عدالتوں کو کسی کے عمل اور ردعمل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ان کا انحصار قوانین کی رو سے تفتیشی رپورٹس پر ہی ہوتا ہے، جس پر اعتراض نہ ہو تو فیصلہ منٹوں میں صادر کردیا جاتا ہے، جیسا کہ رکشہ ڈرائیور کیس میں ہوا۔ غریب خالد کے کیس کی تفتیش آئی جی سندھ کے احکامات پر کی گئی، اب تفتیشی افسر نے کن حقائق کو پیش نظر رکھا، اس کا اندازہ اس کی عدالت میں پیش کردہ تفتیشی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں اس نے عدالت کو بتایا کہ ٹریفک قانون کے خلاف ورزی پر اے ایس آئی حنیف نے رکشہ ڈرائیور خالد کا چالان کاٹا، جس کے بعد رکشہ ڈرائیور خالد نے کچھ دیر بعد آکر خود کو آگ لگالی۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے پوچھا جو چالان کاٹا گیا وہ کہاں ہے؟ جس پر کہا گیا کہ سردست ایسی کوئی چیز موجود نہیں۔ عدالت نے کہا کہ آپ کے ساتھ آر او بھی موجود نہیں ہے، جس کے بغیر ملزم کا ریمانڈ ہی نہیں بنتا، اس کیس میں ملزم پر جو دفعہ لگائی گئی ہے، وہ بھی قابل ضمانت ہے اور یوں اے ایس آئی کا دفاع پولیس کی کاٹی گئی کمزور ایف آئی آر نے کیا اور اسے ایک لاکھ روپے کے عوض باآسانی ضمانت مل گئی۔ پولیس کی اس ذہانت کو کون نہیں جانتا کہ وہ جن کیسوں میں کسی کو بچانا چاہتی ہے، اس کی ایف آر میں ایسی دفعات جان بوجھ کر شامل کی جاتی ہیں، جن سے ملزم کو پہلی ہی پیشی میں ضمانت مل جاتی ہے۔ ملزم حنیف کے دیئے گئے بیان کے برعکس متوفی خالد یوسف نے اپنی موت سے قبل جو بیان اسپتال میں دیا اور جس کا گواہ ایس ایچ او پیر شبیر حیدر بھی ہے، اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں، جس میں متوفی نے واضح طور پر کہا کہ متعلقہ اے ایس آئی حنیف نے اس سے رشوت طلب کی اور رشوت نہ دینے پر اس کا چالان کیا۔ مذکورہ اے ایس آئی آئے روز اس سے رشوت طلب کیا کرتا تھا اور پیسے نہ دینے پر اس کا چالان کاٹا جاتا تھا۔ پولیس اور ٹریفک پولیس کا یہ روز کا کام ہے، ہر چوک چوراہے پر ترچھے ہاتھ سے رشوتیں طلب کرتے اہل کاروں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پولیس افسران بھی ان معاملات سے پوری طرح باخبر ہیں، مگر سب کی زبانیں اس حوالے سے یوں بند رہتی ہیں، جیسے رشوت لینا پولیس اہل کاروں کے لئے جائز عمل ہو۔ خالد اور حنیف دونوں کے مقدمات سرکاری مدعیت میں درج ہوئے۔ حنیف کی زیادتی پر اس کے خلاف تفیش سے پہلے بھی کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا، جس میں اس کے عمل کے خلاف اس کی سرزنش کا شائبہ ملتا ہو، مگر ذمہ داروں نے اقدام خود سوزی پر رکشہ ڈرائیور خالد یو سف کے خلاف کارروائی کا عندیہ ضرور دیا تھا۔ اب خالد کا معاملہ رب کی عدالت پہنچ چکا ہے اور وہ ایسی عدالت ہے، جہاں کسی گواہ، کسی رشوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اعلیٰ پولیس حکام کو چاہئے کہ وہ اہل کاروں کو اتنا فری ہینڈ ہرگز نہ دیں کہ معاشرے میں غلط روایات فروغ پائیں اور انتظامیہ کے رویئے سے لوگوں میں بغاوت جنم لے۔
گستاخی معاف! اگرچہ رکشہ ڈرائیور کا اقدام خود سوزی غلط تھا، مگر اس کے اس عمل نے اس کی اس سوچ کو اجاگر کیا کہ وہ ایک بے بس مزوور شہری ہوتے ہوئے پولیس کے معمولی اہل کار کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کوئی بتائے کہ وہ اے ایس آئی حنیف کی شکایت کس سے کرتا؟ تھانے جاتا تو اس کا مذاق بنتا کہ پولیس کی رشوت ستانی کوئی انہونی بات تو ہے نہیں۔ بہت ہاتھ پاؤں مارتا تو سادے کاغذ پر شکایت درج کرلی جاتی اور اس کے بھی پیسے وصولے جاتے، جبکہ متعلقہ پیٹی بند بھائی کو پولیس اس شکایت کی ہوا بھی نہ لگنے دیتی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭