ترک سعودیہ کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی

0

انقرہ/ ریاض (امت نیوز) ترک صدر کی جانب سے جمال خشوگی قتل میں ملوث سعودی ولی عہد شہزادہ محمد سلمان کے قریبی ساتھی سمیت قاتلوں کی ٹیم کے تمام ارکان کی حوالگی کے مطالبے کی وجہ سے ترکی اور سعودی عرب میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ سعودی کابینہ نے ترک صدر کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے تمام ملزمان کیخلاف خود کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے خشوگی قتل کے منصوبہ ساز کا نام دینے، ملزمان کی حوالگی و قتل کا حکم دینے والے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اردوغان نے واضح کیا ہے کہ ترکی اس ضمن میں سعودی سفارت کاروں کو سفارتی استثنیٰ نہیں دے گا۔ معاملہ اب بہت آگے تک جا چکا ہے۔ امریکہ کے صدر نے خشوگی کیس کے حوالے سے سی آئی اے کی سربراہ کو ترکی بھیج دیا ہے۔برطانوی ٹی وی چینل نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خشوگی کی لاش کی باقیات استنبول میں واقع سعودیہ کے قونصل خانے کے باغ سے مل گئی ہیں۔ دنیا بھر میں منگل کو صحافیوں کی جانب سے جمال خشوگی کے قتل کیخلاف سعودی عرب کے سفارتی مشنز پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ تفصیلات کے مطابق صحافی جمال خشوگی کے معاملے پر سعودی عرب اور ترکی میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق منگل کو سعودی عرب کی کابینہ کا اجلاس شاہ سلمان کی سربراہی میں ہوا۔اجلاس میں ولی عہد کے قریبی ساتھی و جمال خشوگی کی قاتل ٹیم کی حوالگی کا ترکی کا مطالبہ مسترد کرتے کہا کہ سعودی عرب جمال خشوگی کے قتل میں ملوث تمام ملزمان اور فرائض انجام دینے میں ناکام رہنے والے حکام کو تحویل میں رکھ کر خود کیفر کردار تک پہنچائے گا۔ سعودی پارلیمنٹ مجلس شوریٰ نے اپنے بیان میں جمال خشوگی کے قتل کو بعض افراد کا انفرادی عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قتل کرنا مملکت سعودیہ کی ریاستی پالیسی کا عکاس نہیں ہے۔ جکارتہ کے سرکاری دورے کے موقع پر سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ خشوگی قتل کیس کی جامع تفتیش کیلئے سعودیہ پر عزم ہے، تاکہ پورا سچ سامنے لایا جا سکے۔ ملزمان کو سزا دی جائے گی۔ ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے گا کہ آئندہ ایسا کوئی عمل نہ ہو۔ منگل کو ترکی کی پارلیمنٹ سے خطاب میں ترک صدر اردوغان نے کہا کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کو سیاسی بنیادوں پر قتل کیا گیا۔ اس ضمن میں آزاد خود مختار تحقیقاتی کمیشن کا قیام ضروری ہے۔استنبول میں18تمام مشتبہ افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ اس ضمن میں قاتلوں کو ترکی کے حوالے کیا جائے، جبکہ سعودی عرب خشوگی کے قتل کا حکم دینے والے کیخلاف کارروائی کرے۔ یقین ہے کہ شاہ سلمان بھر پور تعاون کریں گے۔ ترکی قتل پر سعودی سفارتکاروں کو سفارتی استثنیٰ دے گا نہ ہی خاموش رہے گا۔ قتل کا حکم دینے والے، منصوبہ بندی کرنے والی ٹیم کیخلاف کارروائی پر ہی ترکی مطمئن ہوسکتا ہے۔ تمام سوالات کے جواب ملنے تک کیس کی تحقیقات بند نہ ہوں گی۔ ہمارے پاس خشوگی کو قتل کرنے کیلئے 29 ستمبر کو ہی منصوبہ بندی کئے جانے کے شواہد ہیں۔ 2 ٹیمیں ترکی بھیجی گئیں۔ریاض سے استنبول آنے والے15 افراد نے سعودی قونصلیٹ کے3 ملازمین کے ساتھ ملکر خشوگی کو قتل کیا۔ واردات کے بعد ریاض سے استنبول آنے والا جمال خشوگی کاایک ہم شکل اسی کے کپڑے اور چشمہ پہن کر نکلا تاکہ یہ تاثر دیا جاسکے کہ خشوگی قونصلیٹ سے باہر جا چکا ہے ۔ سعودی عرب کی جانب سے خشوگی کے قتل کا الزام سیکورٹی عملے اور خفیہ اداروں کے اہل کاروں پر عائد کئے جانے سے ہم مطمئن نہیں ہوسکتے۔ قتل ترکی کی سر زمین پر ہوا ہے اور شاہ سلمان سے اپیل ہے کہ وہ مقدمہ استنبول میں چلنے دیں۔ ترکی اس قتل پر خاموش نہیں رہے گا اور سعودی سفارت کاروں کو ویانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ سے بھی اس معاملے پر تفصیلی بات ہوئی ہے۔ ترک صدر نے بتایا کہ سعودی جنرلز و دیگر پر مشتمل سعودی ٹیم ترکی پہنچی تھی۔خشوگی کے 2اکتوبر کو سعودی قونصلیٹ میں جانے کے بعد انہیں دوبارہ نہیں دیکھا گیا ہے۔ اردگان نے اپنے خطاب میں کئی اہم سوالات اٹھائے کہ آخر خشوگی کے قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد سی سی ٹی وی کیمرے کیوں ہٹائے گئے۔ ان میں سے ایک کیمرے کی ویڈیو سے پتا چلتا ہے کہ خشوگی قونصل خانہ سے کبھی زندہ واپس نہیں نکلا البتہ ایک سعودی اہلکار خشوگی کا روپ دھار کر باہر آیا۔ اپنے خطاب میں اردوغان نے کئی اہم سوالات اٹھائے اور کہا کہ 15رکنی ٹیم ترکی میں کیا کر رہی تھی؟۔ ٹیم کس کے حکم پر ترکی بھیجی گئی۔ قتل کی واردات پر سعودی قونصل خانہ نے فوری تفتیش شروع کیوں نہیں کی؟۔ سعودی عرب سے یکم اکتوبر کو 3، جبکہ 2 اکتوبر کو 15 افراد آئے۔ یہ تمام افراد 2اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے ہی میں کیوں جمع ہوئے۔ ان لوگوں کو کن افراد نے ریسیو کیا۔ ابھی تک خشوگی کی لاش کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ سعودی عرب کے بعض حکام کے مطابق مقامی شخص کو لاش دی گئی تھی، ہمیں بتایا جائے کہ سعودی عرب کا مقامی سہولت کار کون تھا؟۔ آخر سعودی حکام نے کئی متضاد بیان کیوں دیئے؟۔ قتل کا الزام عائد سیکورٹی اور انٹیلی جنس عہدیداروں پر ڈالے جانے سے ہم مطمئن نہیں ہوسکتے۔اردوغان نے کہا کہ ترکی اور پوری دنیا قتل کی پلاننگ و عملدرآمد کرنے والوں کے خلاف کارروائی پر ہی مطمئن ہوگی۔ سعودی حکام منصوبہ ساز کا نام ظاہر کریں۔ قتل استنبول میں ہوا، مقدمہ یہیں چلنا چاہیے، تاہم اس کا حتمی فیصلہ سعودی قیادت کو کرنا ہوگا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خشوگی کی ایپل واچ سے جڑے موبائل فون کی ریکارڈنگ ترک حکام کے پاس ہونے کا بار بار ذکر سامنے آیا تھا، لیکن ترک صدر نے اس آیڈیو ریکارڈنگ کا اپنے خطاب میں کوئی حوالہ نہیں دیا۔ ادھر ایک عالمی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے خشوگی کیس میں معاونت کیلئے سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل کو ترکی بھیج دیا ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ہم نے سعودی عرب اور ترکی میں اپنے انٹیلی جنس ماہرین کو بھجوایا ہے جو جلد ہی واپس آ کر رپورٹ دیں گے۔ دریں اثنا برطانوی اسکائی ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ ترک صدر کے خطاب کے فوری بعد ترک تفتیش کاروں نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے لاش کے ٹکڑے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے کے لان سے مل گئے ہیں۔اس سے قبل اردوغان نے لاش نہ ملنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹکڑوں کی فارنسک تصدیق کیلئے اسے لیب میں بھیج دیا گیا ہے۔ برطانوی ٹی وی کے مطابق بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ خشوگی کی لاش کے ٹکڑے استنبول میں تعینات سعودی قونصل جنرل کے رہائشی حصے سے ملے ہیں۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے گزشتہ دنوں امریکی ٹی وی چینل فوکس کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں جمال خشوگی کے قتل کو انتہائی سنگین غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نہیں جانتے کہ خشوگی کی لاش کہاں ہے؟۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More