یہی خضر علیہ السلام ہیں

0

سلطان محمود غزنوی کا دربار لگا ہوا تھا، دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے، جن میں اولیاء، قطب اور ابدال بھی تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کر کے کہا کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرا سکتا ہے؟
سب خاموش رہے، دربار میں بیٹھا ایک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا میں زیارت کرا سکتا ہوں۔ سلطان نے شرائط پوچھیں تو عرض کرنے لگا: 6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہو گا، لیکن میں ایک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہو گا۔ سلطان نے شرط منظور کر لی۔ اس شخص کو چلہ کے لیے بھیج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہو گیا۔
6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا: حضور کچھ وظائف الٹے ہو گئے ہیں، لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے۔ مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود کے دربار میں اس شخص کو دوبارہ پیش کیا گیا تو بادشاہ نے پوچھا میرے کام کا کیا ہوا…؟
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا: بادشاہ سلامت کہاں میں گناہ گار اور کہاں حضرت خضر علیہ السلام؟ میں نے آپ سے جھوٹ بولا… میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہو رہا تھا، بچے بھوک سے مر رہے تھے، اس لیے ایسا کرنے پر مجبور ہوا۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا اس شخص کی سزا کیا ہے؟ وزیر نے کہا: اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے، لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔ دربار میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ کہنے لگے بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا۔
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا آپ بتائو، اس نے کہا کہ اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے، اس کا گلا نہ کاٹا جائے، بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہو کر مرے، اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے۔ دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا: بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز سے پوچھا تم کیا کہتے ہو؟ ایاز نے کہا بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے ایک سال ایک غریب کے بچے پلتے رہے، آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا، اگر میری بات مانیں، تو اسے معاف کر دیں… اگر اسے قتل کر دیا تو اس کے بچے بھوک سے مر جائیں گے۔ ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا: ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا جی کو بلایا اور پوچھا آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا، اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے۔ بابا جی کہنے لگا بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے، وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا، اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا، غلطی اس کی نہیں، آپ کی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنا لیا۔
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے، اس وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا، کتوں سے شکار کھیلتا تھا، اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کرایا، آپ کی غلطی ہے کہ ایسے شخص کو وزارت دی، جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں، وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے۔
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو یہ زادہ ہے، سید کی شان یہ ہے کہ وہ اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کرا دیتا ہے، مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا… سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہو جاتا ہے اور ایاز کو مخاطب کر کے کہتا ہے: ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سید ہو؟
ایاز کہتا ہے: آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سید ہے، لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا، آج میں بھی ایک راز کھول دیتا ہوں۔ اے بادشاہ سلامت یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں، یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں۔ (علامہ شبلی نعمانی)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More