حصہ دوم
ضیاء الرحمٰن چترالی
مجھے صومالیہ واپسی کی بے چینی کھائے جا رہی تھی، لیکن ایک لمبے عرصے کے انتظار کے بعد مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ جانے کا حکم دے دیا گیا۔ میں اس حکم پر انکار نہ کر سکا، لیکن یہ خیال مجھے ستائے جا رہا تھا کہ کیا میں صومالیہ میں کامیابی سے محروم ہو گیا تھا اور کیا وہاں موجود میری ٹیم کو میری رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔ بار بار خود سے سوال کرتا کہ آخر مجھے صومالیہ کے بجائے تنزانیہ کیوں بھیجا جا رہا ہے، لیکن اس بار پھر اپنے اعلیٰ حکام سے بحث کرنے کے بجائے میں چپ چاپ تنزانیہ روانہ ہو گیا۔
قریباً چار ہفتے بعد جب میرے ادارے کے اعلیٰ حکام نے مجھ پر اندھا اعتماد شروع کر دیا تو مجھے حکم ملا کہ فوری طور پر واپس صومالیہ منتقل ہو جاؤں۔ یہ حکم ملتے ہی میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔ پانچ سے زائد ماہ کی جدائی کے بعد میں واپس صومالیہ پہنچ گیا۔ مجھے اپنے درمیان دیکھ کر صومالیوں کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر مبالغہ آرائی نہ کروں تو یہ کہنا درست ہو گا کہ گویا میری آمد ان کے لیے کسی مسیحا کی آمد سے کم نہ تھی۔
میں واپسی پر اپنے طبی مرکز لوٹ کر اپنی ٹیم کے ساتھ کام میں مشغول ہو گیا۔ محمد باہور نامی صومالی مسلمان مجھ سے زیادہ قریب تھا۔ ایک بار اس نے مجھے اپنے گھر میں دعوت دی، جہاں پر اس کے گھر والوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی۔ اس کے گھر میں ایک بوڑھے شخص سے ملا جو کہ انگریزی انتہائی روانی سے بول سکتا تھا۔ بزرگ محمد باہور کے والد تھے، انہیں پورے علاقے کے لوگ انتہائی عزت و تکریم دیتے تھے بلکہ اس علاقے میں محمد باہور کے والد کو ایک رہنما کی حیثیت حاصل تھی۔ باہور کے والد سے ملاقات پر میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ میرے مشن کے آغاز اور تکمیل کیلئے ان سے کار آمد شخص کوئی اور نہ ہو گا، اگر میں نے انہیں قابو کر لیا تو پھر اس علاقے کے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو قابو کرنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔
چنانچہ میں نے کسی انتظار کے بغیر فوراً ہی بات کرنے کی ٹھان لی۔ دل میں سوچا کہ اپنے مقصد کی بات کی شروعات مذہب سے کروں اور پھر آہستہ آہستہ انجیل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی جانب بڑھوں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ مسلمان حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر بھی ایسے ہی ایمان رکھتے ہیں جیسے کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ پر رکھتے ہیں۔ اس سے قبل کہ میں اپنی بات کا آغاز کرتا، باہور کے والد نے قرآن پاک کا ایک نسخہ اپنے ہاتھ میں اٹھا کر مجھ سے سوال کیا کہ کیا مجھے اس کتاب کے بارے میں معلوم ہے؟
میں نے جعلی تبسم ہونٹوں پر پھیلا دیا اور اس خوف سے کہ کسی غلط بات پر ان کے مذہبی احساسات نہ بھڑک اٹھیں، میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ باہور کے والد نے خاموشی توڑتے ہوئے بتایا کہ انجیل اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں جو بھی سوالات ذہن میں ہوں، ان سے پوچھوں، وہ مجھے اطمینان بخش جواب دے سکتے ہیں۔ میں نے تعجب کرتے ہوئے ان سے سوال کیا کہ آپ کو یہ سب کیسے معلوم ہے تو اس پر انہوں نے بتایا کہ یہ تمام قرآن پاک میں موجود ہے۔
کچھ دیر بعد محفل برخاست ہوئی اور میں طبی مرکز واپس آگیا۔ اس ملاقات کے بعد میں کئی دنوں تک اس سوچ بچار میں تھا کہ آخر اس شخص کے دماغ پر کیسے قابو پاؤں۔ مجھے معلوم تھا کہ اس بوڑھے رہنما کو ذہنی طور پر قابو کر لیا تو میرا کام (مسلمانوں کو مرتد بنانے کا) انتہائی آسان ہو جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد باہور کے والد سے فیصلہ کن بحث مباحثے اور بات چیت کیلئے کئی دنوں تک خوب تیاری کی۔ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی غرض سے مطالعے کیلئے کئی کتب خریدیں اور خود کو مباحثے کیلئے تیار کرتا رہا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post