فاطمہؓبنت قیس صحابیہ سے شادی کے لیے حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف اور حضرت اسامہؓ بن زیدؓ کا ایک ہی وقت میں پیام تھا۔ ان کے سامنے یہ مسئلہ آیا کہ کس کو اپنے لئے بطور شوہر قبول کریں۔ ایک طرف حضرت اسامہ بن زیدؓ تھے، جو ایک غلام کے بیٹے تھے۔ ان کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ گزر اوقات مشکل سے ہوئی تھی۔ دوسری طرف حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف تھے، جو ایک صاحب ثروت شخص تھے۔ خدا تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا تھا۔
فاطمہؓ بنت قیس نے یہ فیصلہ رسول اکرمؐ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
آپؐ نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زیدؓ سے کرانے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے فوراً اس فیصلے کو قبول کر لیا اور کہا: ’’دنیا اور آخرت کی فلاح دولت یا افلاس پر منحصر نہیں ہے، بلکہ اس کا انحصار تو رسول اکرمؐ کے فیصلے پر ہے۔ آپؐ نے میرا نکاح جس سے طے فرما دیا ہے، اسی میں میری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔‘‘ (نسائی، کتاب النکاح)
نیکی کے میدان میں سب سے آگے
ایک دن حضرت ابو بکر صدیقؓ اور بہت سے دوسرے صحابہ کرامؓ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر تھے۔ یکایک حضور اکرمؐ نے حاضرین مجلس سے مخاطب ہو کر دریافت فرمایا: ’’آج تم میں سے کون روزہ دار ہے؟‘‘
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا:حضور!
میں روزے سے ہوں۔ پھر فرمایا: آج تم میں سے کس نے کسی جنازے میں شرکت کی ہے؟ حضرت ابو بکر صدیقؓ: حضور! میں نے۔پھر ارشاد ہوا: آج تم میں سے کس نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟حضرت ابوبکرصدیقؓ: حضور! میں نے۔پھر پوچھا: آج تم میں سے کس نے کسی مریض کی عیادت کی ہے؟حضرت ابوبکر صدیقؓ: حضور! میں نے۔
حضور اکرمؐ نے فرمایا: جس شخص نے ایک دن میں اتنی نیکیاں جمع کی ہوں، وہ یقیناً جنت میں جائے گا۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ ہر نیکی میں پیش پیش رہتے تھے اور حصول ثواب کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔(فضائل اعمال)
Prev Post
Next Post