عبدالمالک مجاہد
چلئے اب ہم رسول اکرمؐ کے ایک صحابی سیدنا ابوالدحداحؓ کا واقعہ پڑھتے ہیں۔ میں نے اس واقعہ کو اپنی کتاب سنہرے اوراق میں ’’جنت کی کھجور‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ یہ واقعہ بالکل درست اور صحیح ہے۔
جنت کی کھجور:
یثرب کھجوروں کی بستی تھی، جو نبی کریمؐ کی آمد کے بعد اب مدینۃ النبی کہلاتی تھی۔ اس میں ہر طرف مختلف باغات تھے۔ ایک دوسرے سے ملے ہوئے، ان کے مختلف مالکان تھے۔ انہی باغات میں ایک یتیم بچے کا باغ بھی تھا، اس کے ساتھ ایک دوسرے آدمی کا باغ تھا۔ کھجوروں کے درخت اس طرح آپس میں ملے ہوئے تھے کہ آندھی اور بارش میں کھجوریں نیچے گر پڑتیں تو آپس میں تمیز کرنا مشکل ہو جاتا کہ یہ کس درخت سے گری ہیں۔ یتیم نے سوچا: کیوں نہ میں دیواربنا کر اپنے باغ کو علیحدہ کرلوں تاکہ ملکیت واضح ہو جائے، کسی قسم کا تنازع اور جھگڑا نہ کھڑا ہو۔
چنانچہ اس نے دیوار بنانے کا فیصلہ کیا، جب اس نے دیوار بنانا شروع کی تو اس کے ہمسائے کی کھجور کا درخت درمیان میں حائل ہوگیا۔ دیوار اس صورت میں سیدھی ہوسکتی تھی، جب یہ درخت اس کو مل جاتا۔ وہ یتیم بچہ اپنے ہمسائے کے پاس گیا اور کہا: آپ کے باغ میں بہت ساری کھجوریں ہیں۔ میں دیوار بنا رہا ہوں، آپ کی ملکیت میں ایک کھجور راستے کی رکاوٹ بن رہی ہے۔ یہ کھجور مجھے دے دیں تو میری دیوار سیدھی ہو جائے گی، مگر اس شخص نے انکار کر دیا۔ اس بچے نے کہا: اچھا آپ مجھ سے اس کی قیمت لے لیں، تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی کر لوں۔ اس نے کہا: میں اسے بیچنے پر بھی تیار نہیں۔ یتیم نے خوب اصرار کیا، ہمسائیگی کا واسطہ دیا، مگر اس پر دنیا سوار تھی۔ اسے نہ یتیمی کا لحاظ تھا، نہ ہمسائیگی کا پاس۔ یتیم نے کہا : کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اپنی دیوار نہ بنائوں، اس کو سیدھا نہ کروں؟ ہمسائے نے کہا: یہ تمہارا معاملہ ہے، تم جانو اور تمہارا کام جانے! تمہاری دیوار سیدھی رہے یا ٹیڑھی، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں، مگر میں کھجور کو فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یتیم جب اس سے مکمل مایوس ہوگیا تو خیال آیا کہ مدینہ طیبہ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں کہ اگر وہ سفارش کر دیں تو میرا کام بن سکتا ہے۔ دل میں خیال آتے ہی قدم مسجد ِنبویؐ کی جانب اٹھ گئے۔
یہ قصہ باعث ِتعجب ہے کہ آپؐ کے صحابہؓ کو آپؐ سے کس قدر محبت تھی اور آپ کے الفاظ کا کس قدر پاس تھا۔ وہ یتیم بچہ جب مسجد نبوی میں آیا تو سیدھا رسول اقدسؐ کے پاس پہنچا، عرض کیا: حضور! میرا باغ فلاں آدمی کے باغ سے ملا ہوا تھا۔ میں ان کے درمیان دیوار بنا رہا ہوں، مگر دیوار اس وقت تک سیدھی نہیں بنتی، جب تک راستے میں ایک کھجور میری ملکیت نہ بن جائے، میں نے اس کے مالک سے عرض کی کہ وہ مجھے فروخت کر دے، میں نے اس کی خوب منت سماجت کی، مگر اس نے انکار کر دیا ہے۔ آپ میری اس سے سفارش کر دیں کہ وہ مجھے کھجور دیدے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جائو !اس آدمی کو بلا کر لے آئو۔‘‘
وہ یتیم اس شخص کے پاس گیا اور کہا: رسول اکرمؐ تمہیں بلا رہے ہیں۔ وہ شخص مسجد ِنبوی میں آیا، آپؐ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا: تمہارا باغ اس یتیم کے باغ سے ملا ہوا ہے، یہ یتیم بچہ دیوار بنا کر اپنے باغ کو تمہارے باغ سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ تمہارا کھجورکا ایک درخت اس کی راہ میں رکاوٹ ہے، تم ایسا کرو کہ اپنے بھائی کو یہ کھجور دے دو!
اس شخص نے کہا: میں تو نہیں دوں گا۔ آپؐ نے پھر فرمایا: اپنے بھائی کو یہ کھجور دے دو! اس نے کہا: جی میں نہیں دے سکتا۔ آپ نے ایک بار پھر فرمایا: اپنے بھائی کو کھجور دے دو، میں تمہیں جنت میں کھجور کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس شخص نے اتنی بڑی پیشکش سننے کے باوجود کہا: نہیں، میں کھجور نہیں دوں گا۔ آپؐ اب خاموش ہوگئے، اس سے زیادہ آپؐ اس کو کیا کہہ سکتے تھے!
صحابہ کرامؓ خاموشی سے ساری گفتگو سن رہے ہیں۔ حاضرین مجلس میں سیدنا ابو دحداحؓ بھی تشریف فرما تھے۔ مدینے میں ان کا بڑا خوبصورت باغ تھا، 600کھجور کے درختوں پر مشتمل باغ اپنے پھل کے سبب بڑا مشہور تھا۔ اس باغ کی کھجوریں اعلیٰ قسم کی شمار ہوتی تھیں، منڈی میں ان کی بڑی شہرت تھی۔ مدینے کے بڑے بڑے تاجر اس بات کی حسرت اور خواہش کرتے تھے کہ کاش! یہ باغ ان کی ملکیت ہوتا۔
ابو دحداحؓ نے اس باغ کے وسط میں اپنا خوبصورت سا گھر تعمیر کر رکھا تھا، بیوی اور بچوں کے ساتھ وہیں رہائش پذیر تھے۔ میٹھے پانی کے کنویں نے اس باغ کی اہمیت کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا۔ ابو دحداحؓ نے جب رسول اکرمؐ کی پیشکش کو سنا تو دل میں خیال آیا کہ اس دنیا کا کیا ہے؟ آج نہیں تو کل مرنا ہے اور پھر ہمیشہ کی زندگی، عیش و آرام یا دکھوں اور آلام کی زندگی ہو گی۔ اگر جنت میں ایک کھجور مجھے مل جائے تو کیا کہنے! آگے بڑھے اور کہا: حضور! یہ جو پیشکش آپ نے کی ہے، صرف اسی شخص کے لیے ہے یا اگر میں اس آدمی سے اس کھجور کو خرید کر اس یتیم بچے کو دے دوں تو مجھے بھی جنت میں کھجور ملے گی؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں تمہارے لیے بھی جنت میں کھجور کی ضمانت ہے۔‘‘ اب ابو دحداحؓ سوچنے لگے کہ ایسی کون سی چیز ہے، جو میں اس شخص کو دے کر اس سے وہ کھجور خرید لوں اور پھر اس یتیم کو دے دوں۔ پھر اچانک ہی ایک عجیب وغریب فیصلہ کیا۔ اس آدمی سے مخاطب ہوئے، کہا: سنو! تم میرے باغ سے واقف ہو، جس میں میرے 600 کھجوروں کے درخت، گھر اور کنواں ہے۔ اس نے کہا: مدینے میں کون ہوگا جو اس باغ کو نہ جانتا ہو! کہا: تم ایسا کرو کہ میرا سارا باغ اس ایک کھجور کے بدلے میں لے لو۔ اس آدمی کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا، اس نے مڑ کر ابودحداحؓ کی طرف دیکھا: پھر لوگوں کی طرف دیکھا۔ سن رہے ہو، ابودحداحؓ کیا کہہ رہا ہے؟ ابو دحداحؓ نے پھر اپنی بات کو دہرایا، لوگوں کو اس پر گواہ بنایا، چنانچہ اس ایک کھجور کے بدلے میں اپنا سارا باغ، کنواں اور گھر اس آدمی کے حوالے کر دیا۔ جب اس کھجور کے مالک بن گئے تو اس یتیم بچے سے کہا: آج کے بعد وہ کھجور تمہاری، میں نے تم کو تحفے میں دے دی، اب اپنی دیوار سیدھی بنائو۔ اب تمہارے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔
اس کے بعد رسول اکرمؐ کی طرف رخ کیا، عرض کی:
حضور! کیا اب میں جنت میں کھجور کا مستحق ہوگیا ہوں؟ تو آپؐ نے فرمایا:
’’ابود حداح کے لیے جنت میں کھجوروں کے کتنے ہی جھنڈ ہیں۔‘‘
ابو دحداحؓ گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز دیتے ہیں: ام دحداح! بیوی کہتی ہے: آپ باہر کیوں رک گئے ہیں، اندر کیوں نہیں آتے؟ دوبارہ آواز آئی: ام دحداح! اہلیہ بولی: حاضر اے ابودحداح! فرمایا: اس باغ سے بچوں سمیت باہر نکل آؤ، میں نے اس کو فروخت کر دیا ہے۔ ام دحداحؓ نے کہا کہ آپ نے اس کو بیچ دیا ہے۔ کس کو فروخت کیا ہے، کون خریدار ہے، کتنے میں؟ فرمایا: میں نے اس کو جنت میں ایک کھجور کے بدلے میں فروخت کر دیا ہے۔ ام دحداحؓ نے کہا: ’’ابو دحداح! آپ نے بڑا ہی منافع بخش سودا کیا ہے۔‘‘ اب باغ میں داخل نہ ہونا۔ بڑا ہی فائدہ مند سودا ہوا ہے، جنت میں ایک درخت، جس کے نیچے گھڑ سوار ستر برس چلتا رہے تو اس کا سایہ ختم نہ ہو۔ ام دحداحؓ نے بچوں کو پکڑا، ان کی جیبوں کو ٹٹولا، جو کچھ ان میں تھا ان کو نکالا، کہا: اب یہ رب کا ہوگیا ہے، ہمارا نہیں اور خالی ہاتھ باغ سے باہر نکل آئیں۔
ابودحداحؓ اور ام دحداحؓ کا یہ اقدام، یہ کارنامہ کوئی معمولی نہیں، رسول اقدسؐ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز کو رب کی راہ میں لٹا دیا۔ اپنے آباد گھر، باغ، کنویں کو چھوڑا اور ہمارے لیے مثالیں قائم کرگئے ۔ اسے کہتے ہیں: حقیقی محب، محب ِصادق، رسول اقدسؐ سے محبت کرنے والے۔ ابو دحداحؓ اور ام دحداحؓ! آپ دونوں پر خدا کی رحمتوں کی بارش ہو۔ آپ نے کتنی بڑی قربانی اور ایثار کا مظاہرہ کیا، بلا شبہ آپ کا یہ کارنامہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔
ریاض میں بعض خواتین نے جب اس واقعہ کو سنا تو انہوں نے کہا کہ ہم ام دحداحؓ کی اس عظیم قربانی اور ایثار سے بہت متاثر ہوئی ہیں۔ لہٰذا ہم پاکستان میں حدیقہ ام الدحداح بنائیں گی۔ چنانچہ گزشتہ دنوں شیخوپورہ میں اس عظیم صحابیہ کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی قربانی اور ایثار کو یادگار اور باعث مثال بنانے کے لیے حدیقہ ام الدحداح بنایا گیا ہے۔ اس میں پھل دار درخت لگائے جا چکے ہیں۔ ان پھلوں سے طلبہ اور اساتذہ استفادہ کریں گے اور اس عظیم صحابیہ کو خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔ ٭