استاد کا رتبہ! (پہلا حصہ)

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
میرے سامنے کئی اخبار بکھرے ہوئے ہیں۔ جن میں ان بزرگ، بیمار، ریٹائرڈ اساتذہ کی تصاویر ہیں، جن کو ڈی جی نیب لاہور نے ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں پیش کیا اور اپنے اس کارنامے کو بڑے فخر سے ٹی وی پر دکھایا۔ ان تصاویر کو دیکھ کر میرا دل کپکپا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نیب کے ہاتھوں اتنے ذلیل ہوئے اور زمین اپنی جگہ قائم رہی۔ استاد کے مرتبے اور احترام کو یہ جعلی ڈگریاں رکھنے والے کیا جانیں، یہ سرکش ان انسانوں کی قدر سے ناواقف ہیں، جنہوں نے انسان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے انسان بنایا۔ یہ مظلوم اساتذہ جو اپنی ساری زندگی بچوں کی ذہنی تربیت میں صرف کر دیتے ہیں، معاشرے میں اعلیٰ مقام تک پہنچاتے ہیں، کیا یہ اسی سلوک کے مستحق ہیں؟
مجھے آج تک وہ دن یاد ہے، جب میں اپنے ایئر کنڈیشنڈ آفس میں بیٹھی ہوئی تھی اور میرے سامنے ان کا چہرہ تھا جو ستا ہوا تھا۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ان کی بے خوابی، بے آرامی اور تھکن کی غمازی کررہے تھے۔ بات کرتے کرتے ان کی آواز رندھ جاتی تھی۔ وہ سر جھکائے کہہ رہی تھیں: ’’وکیل صاحبہ میں صرف انصاف کے لیے آئی ہوں، میرے ساتھ چھبیس سال سے ناانصافی ہو رہی ہے۔ میں نے چھبیس سال پہلے گھریلو حالات سے مجبور ہو کر ملازمت شروع کی تھی، بے شمار اعلیٰ ڈگریاں رکھنے کے باوجود مجھے گورنمنٹ نے ادنیٰ ملازمت دی۔ میرے گھریلو حالات اتنے دگرگوں تھے کہ اگر مجھے اس وقت کسی گورنمنٹ اسکول میں ماسی کی ملازمت ملتی تو بھی میں گوارا کر لیتی۔ لیکن شکر خدا کہ مجھے ادنیٰ گریڈ ہی سہی، ملازمت ملی اور گھر کی دال روٹی کا سہارا ہو گیا۔ انٹرویو لینے والی خاتون نے میری اسناد دیکھیں اور شرمندگی سے بولیں: یہ ملازمت آپ کے لائق تو نہیں، مگر میرا آپ سے وعدہ ہے کہ جیسے ہی اوپر گریڈ میں جگہ خالی ہوگی، میں آپ کو Recommand کروں گی۔
میں نے یہ ملازمت کی تو اس کو ہمیشہ عبادت سمجھ کر کی۔ کبھی طالبات کو علم دینے میں بددیانتی نہیں کی۔ پڑھانے میں، علم دینے میں۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ عالم اور استاد عابد سے بلند ہوتا ہے۔ میرے نبیؐ خود معلم تھے، میں نے ہمیشہ سیرت النبیؐ کو پیش نظر رکھا۔ عمل کو پہلے اہمیت دی، پھر طالبات کو علم دیا، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ خود تو ایسا نہیں کرتیں اور ہمیں کرنے کے لیے کہتی ہیں۔ میں اس محکمے سے چھبیس سال بعد ریٹائر ہوئی ہوں، پوری ملازمت کے دوران میں نے کوئی چھٹی نہیں کی۔ شدید بیماری میں بھی دوائیں کھا کر میں اسکول جاتی اور طالبات کو اپنے علم کے مطابق علم و عمل کی تلقین کرتی رہی۔ حق تعالیٰ نے مجھے حوصلہ دیا، ہمت دی، بائیس سال بعد مجھے میری تعلیمی قابلیت کی بنیاد پر اپ گریڈ کیا گیا۔ بغیر کسی سفارش کے، محکمہ کی اس کارروائی پر میں نے شکرانے کے نفل ادا کئے۔
اب جب میں ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائر ہوئی اور اپنی پنشن کے لیے محکمہ کے چکر لگائے تو معلوم ہوا کہ چار سال پہلے جو میں اپ گریڈ ہوئی تھی، وہ کسی ڈائریکٹر کی غلطی تھی، اب میں دوبارہ چار سال پرانے گریڈ پر واپس بھیج دی گئی۔ بغیر کسی پیشگی اطلاع کے، کس جرم میں، کس قانون کے تحت، کچھ پتہ نہیں۔دو سال سے محکمہ کے چکر لگا رہی ہوں۔ ڈائریکٹر صاحب ملتے نہیں، وہ اندر کمرے میں میٹنگ میں مصروف ہوتے ہیں، کئی کئی گھنٹے انتظار میں کھڑے ہو کر واپس آگئی۔ ایک مرتبہ اچانک ان کے کمرے میں گھس گئی تو وہ اکیلے کمرے میں ٹیلی فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھے، میٹنگ کا صرف بہانہ تھا۔ ڈائریکٹر صاحب کا آفس پانچویں منزل پر ہے، لفٹ صرف آفیسرز کے استعمال کے لیے ہیں، دفتروں کے چکر لگاتے لگاتے میں تھک چکی ہوں، کلرک اور ڈائریکٹر کے نمائندے رشوت کے لیے منہ پھاڑے کھڑے رہتے ہیں۔
اگر آپ جہنم کی آگ کے لیے تیار ہیں تو لاکھ سوا لاکھ ان رشوت خوروں کو دے دیں، آپ کا کام گھر بیٹھے ہو جائے گا۔ وہ کلرک آکر آپ سے دستخط کرا کے آپ کو رقم کا چیک دے دیں گے۔ دوسری صورت میں میرے گریڈ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، جو تنخواہ اپ گریڈ ہونے کے بعد مجھے ملی تھی، وہ میری پنشن میں کاٹ لی جائے گی۔ جو آپ کھا چکے ہیں، وہ آپ کو اگلنا پڑے گا، مجھے بتائیں میں کیا کروں؟ کیا آپ مجھے کوئی سیدھا اور سچا راستہ دکھا سکتی ہیں؟ وہی راستہ جو میں اپنے شاگردوں کو سکھاتی آئی ہوں۔ ایمانداری، دیانت، سچائی، اصول پرستی کا راستہ۔ کیا میں بھی ان رشوت خوروں کے راستے پر چل کر جہنم کا انتخاب کر لوں؟
میرا تعلیم کا محکمہ بک رہا ہے، لاکھوں میں، ہر عہدے کے الگ دام ہیں، ہر سیٹ کی الگ قیمت ہے۔ عہدوں کے لیے جو جتنا زیادہ نذرانہ پیش کرتا ہے اتنی ہی مراعات کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ عہدوں کی خرید و فروخت ہورہی ہے، بڑے سے بڑے عہدے کی اپنی قیمت ہے۔ کچھ مدت کے لیے وہ سیٹ بکتی ہے، اس سیٹ پر بیٹھنے والا اپنوں کو نوازتا ہے، جب اس کو کسی جرم میں معطل کیا جاتا ہے یا اس کی ملازمت کی مدت ختم ہو جاتی ہے، تو وہ اپنے ہی دستخط شدہ احکامات کو منسوخ کر کے چلا جاتا ہے۔ یہ اسلامی ملک میں کس قسم کے قوانین رائج ہیں، یہاں کوئی منصف نہیں۔ یہ تقرری یہ تنزلی کی کہانیاں کب تک چلتی رہیں گی۔ یہاں استاد کی کوئی عزت نفس نہیں، جب جو چاہتا ہے اسے بے عزت کر دیتا ہے۔ ہم جیسے لوگ کب تک محکموں کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے رہیں گے۔ ساری جوانی، اپنی صحت، اپنی صلاحیتیں محکمے کی نذر کر دیں۔ اب بڑھاپے میں اس محکمہ کے ظلم و ستم نے سینکڑوں بیماریاں لگا دی ہیں۔‘‘
وہ بولتے بولتے تھک گئی تھیں، ان کی سانس پھولنے لگی تھی، میں اس تھکے ہوئے چہرے کو خوب اچھی طرح پہچانتی تھی، مگر اس خیال سے اپنے ہونٹ سی کر ان کی بات سن رہی تھی کہ اگر میں نے اپنی شناخت کرا دی تو وہ شاید شرمندہ ہو کر مجھے اپنا کیس دینے سے انکار کر دیں۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے ایسی ہی خوددار اور غیرت مند تھیں۔ وہ میری استاد تھیں، جنہوں نے مجھے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا اور پنسل پکڑ کر لکھنا سکھایا تھا، جھوٹ سچ کا فرق بتایا تھا، نیکی اور بدی کی پہچان بتائی تھی، علم کی فضیلت سے آشنا کیا تھا۔ میں ایک بے شوق سی طالبہ تھی، فضول تفریحات میں مگن رہنے والی، انہوں نے ہمیشہ مجھے علم حاصل کرنے اور طلب علم کا شوق پیدا کرنے میں میری مدد کی تھی۔ وہ اسکول کی طالبات سے شدید محبت کرتی تھیں۔ پاکستان ڈے پر ان کا جوش و خروش قابل دید ہوتا۔ وہ ہم سب طالبات کو خود تقاریر لکھ کر یاد کراتیں، قومی نغموں کی تیاری کراتیں۔ مختلف اسکولوں کے درمیان مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر آمادہ کرتیں۔
وہ انتہائی محب وطن تھیں، اپنی زمین اپنے وطن کے ذرے ذرے سے پیار کرنے والی، علم کی رسیا اور علم بانٹنے کی شوقین، کبھی آدھی رات کو بھی کسی طالبہ کو ان کی ضرورت ہوتی، تو وہ علم دینے میں کبھی بخل نہ کرتیں۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ علم تو ایسی دولت ہے، جو بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ روپے پیسے کی ہمیں خود حفاظت کرنا پڑتی ہے اور علم خود ہمارا محافظ بن جاتا ہے۔ علم نبیؐ کی میراث ہے، اس پیشے کی حرمت کو بلند کرنے والی اس باعزت خاتون نے مجھے پاکستان سے محبت کرنا سکھائی تھی۔ پاکستان کی تاریخ، پاکستان کا جغرافیہ، اس کی تحریک کے لیے جدوجہد، دو قومی نظریہ، اس کی اہمیت، پاکستان کے قیام کے اسباب یہ سب ہم طالبات کو ازبر تھے اور یہ سب میری انہی مہربان اور شفیق استاد کی وجہ سے تھا، جو اس وقت میرے سامنے اپنا دل کھول کر بیٹھی تھیں۔
وہ مہربان مائوں جیسی استاد جس نے ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا، ہمارے ناپختہ ذہنوں کو اپنے علم، تجربے اور رہنمائی سے جلا بخشی تھی۔ ہم کم ظرف احسان فراموش جعلی ڈگری رکھنے والے ناقابل بھروسہ لوگوں نے انہیں ایسے وقت میں دھوکہ دیا جب وہ اپنی زندگی کا سارا علم، عمر، سرمایہ حیات ہمارے حوالے کر کے خود تہی دست تھیں۔ کیونکہ جو کچھ کفایت اور سلیقے سے انہوں نے پس انداز کیا تھا، وہ دو سال میں ختم ہو گیا۔ وہ دو سال سے بغیر تنخواہ اور بغیر پنشن کے کس طرح گزارا کررہی تھیں، ہم میں سے کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ہم سب ان سے تعلیم حاصل کر کے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہو گئے۔ جنہوں نے ہمیں جینے کا قرینہ سکھایا ان کو یکسر فراموش کر دیا، وہ بے حد مایوس نظر آرہی تھیں، عزم و حوصلے کی تمام کرنیں ان کے چہرے پر بجھ رہی تھیں۔ میں ان کے سامنے کرسی پر بے چین بیٹھی پہلو بدل رہی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ عملی زندگی کو برتنے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ کسی کو صحیح راستہ دکھانا اس کے لیے قربانی دینا اور علم کی فضیلت سے آشنا کرنا کتنا مشکل اور کٹھن کام ہے اور میرے اساتذہ نے یہ مشکل کام زندگی بھر کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More