اس کے بعد خلیفہ ہارون الرشید نے بصرہ میں اپنے شہزادے کی قبر پر جانے کا ارادہ کیا۔ ابو عامر ساتھ تھے۔ اس کی قبر پر پہنچ کر ہارون الرشید نے چند شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے:
’’اے وہ مسافر جو اپنے سفر سے کبھی بھی نہ لوٹے گا۔ موت نے کم عمری کے زمانے میں اس کو جلدی سے اچک لیا۔ اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو میرے لیے انس اور دل کا چین تھا۔ لمبی راتوں میں بھی اور مختصر راتوں میں بھی تو نے موت کا وہ پیالہ پیا ہے، جس کو عنقریب تیرا بوڑھا باپ بڑھاپے کی حالت میں پئے گا، بلکہ دنیا کا ہر آدمی اس کو پئے گا، چاہے وہ جنگل کا رہنے والا ہو یا شہر کا رہنے والا۔ پس سب تعریفیں اسی وحدہٗ لاشریک کے لیے ہیں، جس کی لکھی ہوئی تقدیر کے یہ کرشمے ہیں۔‘‘
ابو عامر کہتے ہیں کہ اس کے بعد جو رات آئی تو میں اپنے وظائف پورے کر کے لیٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں ایک نور کا قبہ دیکھا، جس کے اوپر نور ہی نور پھیل رہا ہے۔ اس نور کے ابر میں سے اس لڑکے نے مجھے آواز دے کر کہا: ابو عامر تمہیں حق تعالیٰ شانہ جزائے خیر عطا فرمائے (تم نے میری تجہیز تکفین اور میری وصیت پوری کی)
میں نے اس سے پوچھا کہ میرے پیارے تیرا کیا حال گزرا؟ کہنے لگا کہ میں ایسے مولیٰ کی طرف پہنچا ہوں، جو بہت کریم ہے اور مجھ سے بہت راضی ہے، مجھے اس مالک نے وہ چیزیں عطا کیں، جو کبھی نہ کسی آنکھ نے دیکھیں، نہ کان نے سنی نہ کسی کے دل پر اس کا خیال گزرا۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ تورات میں لکھا ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے ان لوگوں کے لیے جن کے پہلو رات کے خواب گاہوں سے دور رہتے ہیں (یعنی تہجد گزاروں کے لیے) وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کان نہ سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خیال گزرا، نہ ان کو کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے، نہ کوئی نبی ورسول جانتا ہے اور یہ مضمون قرآن پاک میں بھی ہے۔
ترجمہ: ’’کسی شخص کو خبر نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ایسے لوگوں کے لیے خزانہ غیب میں موجود ہے۔‘‘ (سورۃ سجدہ ع 2)
اس کے بعد اس لڑکے نے کہا کہ حق تعالیٰ شانہ نے قسم کھا کر فرمایا ہے کہ جو بھی دنیا سے اس طرح نکل آئے جیسا میں نکل آیا اس کے لیے یہی اعزاز و اکرام ہیں جو میرے لیے ہوئے۔
صاحب روض کہتے ہیں کہ یہ سارا قصہ مجھے اور طریقے سے بھی پہنچا ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ کسی شخص نے ہارون الرشید سے اس لڑکے کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ میرے بادشاہ ہونے سے پہلے یہ لڑکا پیدا ہوا تھا۔ بہت اچھی تربیت پائی تھی، قرآن پاک بھی پڑھا تھا اور علوم بھی پڑھے تھے، جب میں بادشاہ بن گیا تو یہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ میری دنیا سے اس نے کوئی راحت نہ اٹھائی۔ چلتے وقت میں نے ہی اس کی ماں سے کہا تھا کہ اس کو یہ انگوٹھی دیدے۔ اس انگوٹھی کا یاقوت بہت زیادہ قیمتی تھا، مگر وہ اس کو بھی کام میں نہ لایا۔ مرتے وقت واپس کر گیا۔ یہ لڑکا اپنی والدہ کا بڑا فرمانبردار تھا۔ (بحوالہ موت کا منظر)
ویسے تو یہ تمام واقعہ ہی سبق آموز اور عبرت کا مرقع ہے، مگر اس واقعہ سے چند سبق آموز باتیں بطور خاص جو ذہن میں آتی ہیں:
پہلی بات… شہزادے کو حق تعالیٰ نے بڑے انعامات سے نوازا تھا، یہ انعام خداوندی ہی تھا کہ انہوں نے شاہی محل پر بیٹھے ہوئے جانور سے کہا کہ خدا کے حکم سے میرے ہاتھ پر آکے بیٹھ جا، وہ آکر بیٹھ گیا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ خدا کے خاص بندوں میں سے تھے اور انہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کو خیر باد کہہ رکھا تھا، جس کی وجہ سے جانور بھی ان کے تابع حکم ہوجاتے تھے۔
چنانچہ اس کی زندہ مثال ان کا یہ واقعہ ہے کہ جب یہ کمبل کا کرتہ اور لونگی سر پر باندھے پہنے ہوئے دربار شاہی میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین نے نظر حقارت سے دیکھا، باپ نے نصیحت کی اور کہا، تو ایسے ایسے لباس پہن کر میری رسوائی اور جگ ہنسائی کرا رکھی ہے، میرے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ کپڑے ہیں وہ تیرے لئے نہیں تو کس کے لئے ہیں؟ شہزادے نے باپ کو ایسا حیران کن جواب دیا کہ لوگ منہ تکتے رہ گئے کہ ’’مجھ سے دنیا دار نفرت کرتے ہیں، لیکن آپ کی طرف تو جانور بھی توجہ نہیں کرتے‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭