سید ارتضی علی کرمانی
مرزا قادیانی کی تحریروں سے یہ پتا چلتا ہے کہ وہ 1901ء تک اس بات کا اقرارکرتا رہا کہ حضور نبی کریمؐ آخری نبی ہیں۔ اپنے ایک مکتوب میں جو عربی میں تحریر کیا گیا تھا، اس نے مشائخ ہند کو ’’انجام آتھم‘‘ کے نام سے ارسال کیا۔ (ترجمہ): ’’میرا اعتقاد یہ ہے کہ میرا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں اور میں کوئی کتاب بجز قرآن کے نہیں رکھتا اور میرا کوئی پیغمبر بجز محمدؐ کے نہیں، جو خاتم النبیین ہیں، جن پر خدا نے بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل کی ہیں اور ان کے دشمنوں پر لعنت بھیجی ہے۔ گواہ رہو کہ میرا تمسک قرآن شریف ہے اور رسول اقدسؐ کی حدیث، جو چشمہ حق و معرفت ہے، اس کی میں پیروی کرتا ہوں اور تمام باتوں کو قبول کرتا ہوں جو کہ اس خیر القرون میں باجماع صحابہؓ صحیح قرار پائی ہیں۔ نہ ان پر کوئی زیادتی کرتا ہوں نہ کمی اور اسی اعتقاد پر میں زندہ رہوں گا اور اسی پر میرا خاتمہ ہوگا اور جو شخص ذرہ بھر بھی شریعت محمدیہؐ میں کمی پیشی کرے یا کسی اجماعی عقیدے کا انکار کرے اس پر خدا اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔‘‘
مگر آخر کار اس نے اسی لعنت کو اختیار کر لیا اور حاصل بھی کی کہ جس کی دعا اس نے کسی اور کے لیے کی تھی۔ 1901ء کے ماہ اگست میں اس بدبخت کے بدبخت مشیر مکروہ مولوی عبدالکریم جو کہ مرزا کی مسجد کا خطیب تھا، نے ایک روز مرزا کو نماز جمعہ کے خطبہ میں نبی اور رسول کہا۔ نماز جمعہ کے بعد سید محمد احسن امروہی قادیانی، خطیب مذکورہ سے جگھڑتے رہے۔ مگر اس نے اگلے جمعہ انہی الفاظ کو دوبارہ کہا اور مرزا کا دامن پکڑ کر کہا کہ میں آپ کو نبی رسول مانتا ہوں، اگر میں غلطی پر ہوں تو حضور مجھے درست فرمائیں۔
اس پر مرزا مڑا اور کہنے لگا ’’مولوی صاحب ہمارا بھی یہی مذہب اور دعویٰ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔‘‘ یہ سن کر سید محمد احسن غصہ سے بھرے ہوئے واپس آگئے اور مسجد کے اوپر چھت پر ٹہلنے لگے۔ جب مولوی عبد الکریم وہاں پہنچے تو سید محمد حسن اس سے لڑنے لگے۔ آوازیں بلند ہوئیں تو مرزا مکان سے نکل کر آیا اور قرآن کی ایک آیت پڑھی۔
(الفضل قادیان 4 جنوری 1923ء۔ رسالہ فرقان قادیان بابت اکتوبر 1942 )
ایک اور جگہ لکھتا ہے کہ:
’’میں اپنی نسبت نبی یا رسول کے نام سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں اور جب کہ خدا تعالیٰ نے یہ نام میرے رکھے ہیں تو میں کیونکر رد کردوں یا کیونکر اس کے سوا کسی سے ڈروں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ نومبر 1901ء)
اسلام کے خلاف آخر اس لعین نے اپنی زبان کھولی اور 1905ء میں اس نے ’’براہین احمدیہ‘‘ حصہ پنجم میں لکھا کہ:
ایسا نبی کیا عزت اور کیا مرتبت اور کیا تاثیر اور کیا قوت قدسیہ اپنی ذات میں رکھتا ہے جس کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے صرف اندھے اور نابینا ہوں اور خدا تعالیٰ اپنے مکالمات اور مخاطبات سے ان کی آنکھیں نہ کھولے۔
یہ کس قدر لغو اور باطل عقیدہ ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ بعد آنحضرتؐ کے وصی الٰہی کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے اور آئندہ قیامت تک اس کی کوئی بھی امید نہیں۔ صرف قصوں کی پوجا کرو۔ پس ایسا مذہب کچھ مذہب ہو سکتا ہے؟ جس میں براہ راست خدا تعالیٰ کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ جو کچھ ہیں قصے ہیں اور کوئی اگر اس کی راہ میں جان بھی فدا کرے اس کی رضا جوئی میں فنا ہو جائے اور ہر ایک چیز پر اس کو اختیار کرے تب بھی وہ اس پر اپنی شناخت کا دروازہ کھولتا اور مکالمات اور مخاطبات سے اس کو مشرف نہیں کرتا۔
میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس زمانے میں مجھ سے زیادہ بیزار ایسے مذہب سے اور کوئی نہ ہوگا۔ میں ایسے مذہب کا نام شیطانی مذہب رکھتا ہوں کہ ایسا مذہب جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔‘‘
اہل بیت اطہار کی گستاخی:
ایک جگہ ’’نزول المسیح‘‘ میں مرزا غلام قادیانی نے لکھا کہ
’’افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسینؓ کو ابنیت کا حق بھی نہیں دیا، بلکہ نام تک مذکور نہیں۔ ……… اس کے بعد ایسے الفاظ لکھے ہیں، جنہیں نوک قلم پر نہیں لایا جا سکتا۔
’’درثمین‘‘ جو کہ مرزا کا مجموعہ کلام ہے، اس میں میں (خدا کی پناہ) خود کو سیدنا حسینؓ سے افضل قرار دیا۔
مرزا غلام احمد کا بیٹا خطبہ نماز جمعہ میں اس کے اشعار کی تشریح کرکے اس سے بھی زیادہ بکواسات کرتا تھا۔ (خطبہ جمعہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ الفضل قادیان 26 جنوری 1926ئ) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭