عباس ثاقب
لال سنگھ نے اپنی شلوار سنبھالتے ہوئے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے خاصے ناراض لہجے میں ٹھیٹھ پنجابی میں پوچھا۔ ’’او تم کون ہو بھائی؟ کیوں صبح صبح نیند خراب کرنے آگئے ہو؟‘‘۔
میں نے اس کے لہجے کا گویا برا مناتے ہوئے پنجابی میں کہا۔ ’’او لال سنگھ، تمہیں کسی نے مہمانوں سے بات کرنے کا طور طریقہ نہیں سکھایا؟ تم نے کیا مجھے بھکاری سمجھا ہے جو اس لہجے میں بات کر رہے ہو؟‘‘۔
میرے جارحانہ اور پُراعتماد لہجے نے اس پر میری مرضی کے عین مطابق اثر کیا۔ ’’ناراض نہ ہوں سرکار، میرا مطلب یہ تھا کہ کوئی کام تھا تو دکان پر آجاتے۔ گھر پر تو…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹ کر بدستور سخت لہجے میں کہا۔ ’’مجھے جو کام ہے، اس کا تمہارے کیمرے اور دکان سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور شاید تمہیں احساس نہیں ہے کہ تمہاری دکان پر آنے کا مطلب اب بدنامی مول لینا ہے۔ کیونکہ پوری دنیا کو تمہارے اصل دھندے کا پتا چل چکا ہے‘‘۔
یہ سن کر وہ کھسیانا سا ہوگیا۔ میں نے اس پر نفسیاتی دباؤ برقراررکھتے ہوئے کہا۔ ’’راہ چلتے لوگ بھید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہیں کھڑا رکھو گے یا اندر بھی لے چلوگے‘‘۔
کچھ دیر شش و پنج میں رہنے کے بعد اس نے مردہ سے لہجے میں کہا۔ ’’آجاؤ جی!‘‘۔
میں اس کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر کے دو ہی کمرے تھے اور دونوں کے دروازے اس وقت کھلے نظر آئے۔ وہ مجھے پہلے والے دروازے کے سامنے سے گزارتے ہوئے دوسرے دروازے کی طرف لے گیا۔ اس دوران پہلے والے کمرے میں میری اچٹتی سی نظر پڑی اور مجھے افسوس ہوا کہ میں آنکھ چراکر سیدھا کیوں نہیں نکل گیا۔ دوسرے کمرے میں قدم رکھتے ہی مجھے اندازہ ہوگیا کہ کاٹھ کباڑ سے بھرے اس کمرے کو شاید کئی سال سے صفائی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ وہاں بیٹھنے کے لیے کوئی کرسی، مونڈھا، حتیٰ کہ کوئی ٹوٹی ہوئی چارپائی بھی نہیں تھی۔
میں نے کمرے میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں اور پھر سوالیہ نظروں سے لال سنگھ کی طرف دیکھا، جو شرمندگی سے نظریں چرارہا تھا۔ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ ’’اچھا تو تم اس لیے مجھے گھر میں نہیں لانا چاہتے تھے۔ اس کمرے اور گھر کا حال صاف بتارہا ہے کہ اسے کبھی کسی خانہ دار عورت کا ہاتھ نہیں لگا۔ میں یہاں کھڑے کھڑے تم سے کیا بات کروں؟ اس عورت کو کپڑے پہنا کر فٹافٹ یہاں سے چلتا
کرو۔ تب تک میں انتظار کرلیتا ہوں، سمجھے؟‘‘۔
اس نے بدستور نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’اس کا ابھی دو تین گھنٹے ہوش میں آنا ممکن ہے۔ اس سے مالٹے والی دارو کا نشہ برداشت نہیں ہوتا‘‘۔
میں نے ناراض لہجے میں کہا۔ ’’لیکن میں اس کباڑ خانے میں تم سے دھندے کی بات نہیں کر سکتا۔ یہ دھول مٹی میری سانس میں اتر رہی ہے۔ ٹھیک ہے، میں کسی اور بندے سے بات کر لیتا ہوں‘‘۔
یہ سن کر وہ بے قرار سا ہوگیا۔ ’’آپ بس پانچ سات منٹ رکیں۔ میں اسے کسی نہ کسی طرح اٹھاکر اس کے اڈے پر بھجواتا ہوں‘‘۔
میں اگلے پندرہ منٹ تک اسی کباڑ خانے میں کھڑا دوسرے کمرے میں ہونے والے معرکے کا رواں تبصرہ سنتا رہا۔ لال سنگھ غالباً پہلے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اپنی شب شریک کو بیدار کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر شاید اس نے پانی کے چھپکے مارے اور بالآخر پانی کا جگ الٹ دیا۔ اس کے ساتھ ہی چیخم دھاڑ، گالم گلوچ، لعنت ملامت اور منت سماجت کا طویل دور چلا۔ بالآخر بنتو نامی وہ عورت جانے پر تو تیار ہوگئی، لیکن گھر سے باہر قدم رکھنے تک وہ مسلسل لال سنگھ کے لتے لیتی رہی۔
سکون ہونے کے بعد بھی کئی منٹ تک لال سنگھ کی آمد نہ ہوئی تو میں خود دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بستر اور فرش پر بکھرے کھانے کی باقیات، شراب کی خالی اور آدھی خالی بوتلیں سمیٹ رہا تھا۔ فرش بھی گیلا نظر آرہا تھا۔ جیسے کسی قسم کا فضلہ صاف کیا گیا ہو۔ میں لال سنگھ کی طرف سے بستر پر بیٹھنے کی دعوت نظر انداز کر کے ایک بدحال سے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ میں نے بغیر کسی تمہید کے بات شروع کردی۔ ’’میں تین دن سے پٹیالا میں ہوں اور مزید تین دن یہاں رکوں گا۔ میرا ذوق بہت بلند ہے، اورمجھے اپنی صحت بہت پیاری ہے، اس لیے بازاری اور دھندا کرنے والی عورتوں سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے پتا ہے تم ایسی ہی عورتیں سپلائی کرتے ہو۔ لیکن تمہارے پاس آنے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے کسی نے بتایا ہے کہ تم کسی ناری نکیتن سے بالکل ان چھوئی لڑکیاں مہیا کر سکتے ہو‘‘۔
میری باتیں شاید اس کے لیے غیر متوقع تھیں۔ لہٰذا وہ پہلے تو چونکا اور پھر مبہوت سا ہوکر میری بات مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ پھر اس نے گویا خود کو سنبھالتے ہوئے روکھے لہجے میںکہا۔ ’’آپ نے غلط سنا۔ میرا کسی ناری نکیتن سے کوئی تعلق نہیں ہے، نہ ہی میں آپ کو ایسی کوئی عورت سپلائی کر سکتا ہوں‘‘۔
میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تمہیں میری باتوں سے اندازہ لگالینا چاہیے تھا کہ میں اس ناری نکیتن کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل ہونے کے بعد ہی یہاں آیا ہوں۔ فکر نہ کرو، میں پولیس وولیس سے تعلق نہیں رکھتا‘‘۔میری بات سن کر اس نے گویا
کان پر سے مکھی اڑائی۔ ’’پولیس کی کسے پروا ہے بابو۔ لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں آپ کے لیے ناری نکیتن سے لڑکی کا بندوبست نہیں کر سکتا۔ وہ معاملہ میرے بس سے باہر کا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’مجھے پتا ہے تم براہ راست یہ کام نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر تم مانک کے ذریعے میرا کام کروادو تو تمہارا اچھا کمیشن بن سکتا ہے۔ میں اپنے مطلب کی لڑکی حاصل کرنے کے لیے لمبا مال خرچ کر سکتا ہوں‘‘۔
میں نے اس کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ شاید پہلے بھی اسی لیے لاتعلقی ظاہر کر رہا تھا کہ اسے اس سودے میں کسی اچھی یافت کی توقع نہیں تھی۔ میں نے اسے اچھی طرح گھیرنے کے لیے جال مزید پھیلایا۔ ’’اچھا ایسا کرو، تم صرف مانک سے میری بات کرادو اور اپنے دو سو روپے کھرے کرلو۔ اس کے بعد میں جانوں اور وہ جانے!‘‘۔
دو سو روپے کا سنتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے گہری سانس لے کر گویا اپنے ہیجانِ مسرت پر قابو پانے کی کوشش کی۔ پھر وہ ایک شانِ بے نیازی سے بولا۔ ’’ٹھیک ہے، آپ کی خاطر میں اسے بلوانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن اسے ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ کبھی یہاں ہوتا ہے تو کبھی چندی گڑھ اور امرتسر۔ ایسا کریں آپ کل دوپہر کے بعد یہیں آجائیں۔ اگر وہ مل گیا تو یہیں ملاقات ہوجائے گی۔ ورنہ یہ تو پتا چل ہی جائے گا کہ وہ کب مل سکتا ہے‘‘۔
میں نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ’’نہیں، مجھے آج اور ابھی نتیجہ چاہیے۔ میں تمہارے ساتھ اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں۔ اس کا گھر غالباً پٹیالا ہی میں ہے۔ گھر پر نہ ملا تو ہم اس ناری نکیتن سے اس کا اتا پتا معلوم کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’اور اگر وہ شہر سے باہر ہوا تو؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ایسی صورت میں تم دونوں جگہ اس کے پیغام چھوڑو گے کہ وہ فوری طور پر تم سے ملاقات کرے، کیونکہ تمہیں اس سے ایک اہم کام ہے۔ اس کے بعد تم اپنے طور پر پتا لگانے کی کوشش کرو گے کہ وہ کہاں ہے‘‘۔
یہ کہہ کر میں نے جیب سے دو سو روپے نکال کر اسے دکھائے اور واپس اپنی جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم جلد از جلد مانک کو ڈھونڈ کر مجھ سے ملوا دو۔ یہ مال تمہاری جیب میں جانے کے لیے بے قرار ہے۔ اتنی آسانی سے اتنی بڑی رقم، تم زندگی میں شاید کبھی نہیں کما سکو گے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭