فرانس کے شہر اسٹراس برگ میں قائم یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق (ای ایچ سی آر) نے پیغمبر اسلامؐ کی شان میں گستاخی کرنے والی آسٹرین عورت کے خلاف تاریخی فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے سینتالیس سالہ ملعونہ الزبتھ سباڈوک وولف کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ویانا کی ضلعی عدالت کی جانب سے اسے سنائی گئی پانچ سو اڑتالیس ڈالر جرمانے کی سزا برقرار رکھی۔ نیز اس مقدمے کے مالی اخراجات بھی وہی برداشت کرے گی۔ عدالت کے سات ججوں پر مشتمل پینل نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا کہ حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی آزادیٔ اظہار نہیں، بلکہ فساد اور انتشار کا باعث ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اظہار رائے کی آزادی اس بات کا نام نہیں ہے کہ اس کی آڑ میں دنیا کی آبادی کے بڑے حصے یا مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے۔ ملعونہ کے خلاف آسٹریا کی عدالت کا فیصلہ درست تھا، جو مذہبی ہم آہنگی اور امن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ عدالت نے آزادیٔ اظہار کے حق کو محتاط اور متوازن انداز میں پرکھا اور دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کو بھی مد نظر رکھا۔ ملعونہ الزبتھ سباڈوک وولف 2008ء اور 2009ء میں ’’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘‘ کے عنوان سے اپنی کئی تقریروں میں شان رسالت میں گستاخی کا ارتکاب کرتی رہی۔ مسلمانوں کے احتجاج پر فروری 2011ء میں ویانا کی ضلعی عدالت نے اسے مجرم قرار دیتے ہوئے 548 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس پر ملعونہ نے پہلے آسٹرین اپیل کورٹ اور پھر یورپی عدالت میں اپیل دائر کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔ یورپی عدالت کے اس تاریخی فیصلے کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مسلمانوں کے خلاف تمام تر عالمی سازشوں اور پروپیگنڈے کے باوجود ان کے حق میں انصاف کا دامن تھامنے والے باضمیر افراد کی یورپ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ یہ کسی ایک ملک کی عدالت کا فیصلہ نہیں ہے۔ بلکہ ’’کونسل آف یورپ‘‘ کے سینتالیس ممالک کی مشترکہ عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ گو کہ اس ملعونہ کے جرم کے مقابلے میں اس پر عائد جرمانے کی رقم نہایت معمولی ہے۔ تاہم اس اہم فیصلے سے مغرب میں گستاخوں کو ناپاک جسارت سے روکنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے، جو اظہار رائے کی آزادی کو آڑ بنا کر پے درپے شان رسالت میں توہین کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ رواں برس جون میں رسوائے زمانہ ڈچ سیاستدان ملعون گیرٹ ولڈزر نے ملکی پارلیمنٹ میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کرانے کا اعلان کیا تھا۔ اس ناپاک جسارت سے دنیا بھر کے مسلمانوں سخت تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ حکومت پاکستان کے سخت ردعمل، مذہبی جماعتوں کے لانگ مارچ اور گیرٹ ولڈزر کو دھمکیاں ملنے بعد کے یہ ملعون مقابلے منسوخ کرنے پر مجبور ہوا۔ تاہم گزشتہ دنوں اس نے ایک بار پھر نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی کر دی۔ ملعون کے گستاخانہ ٹویٹ پر پاکستان نے ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے بھر پور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق جمعرات کو ہالینڈ کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور انہیں پاکستان کی حکومت اور عوام کے جذبات سے آگاہ کیا گیا۔ قبل ازیں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں بھی بڑے جاندار انداز میں اٹھایا تھا۔ مغرب میں اسلام کی تیزی سے اشاعت کو دیکھ کر طاغوتی قوتوں کے ہاتھ پیر پھول گئے تو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیئے۔ پہلے دہشت گردی کا ہوا کھڑا کر کے اسلام کی راہ روکنے کی عالمی گٹھ جوڑ بنالیا گیا۔ پھر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے انہیں انتہا پسندی کے راستے پر ڈالنے کیلئے توہین رسالت کا سلسلہ تواتر سے شروع کیا گیا۔ تاکہ وہ طیش میں آکر انتہائی قدم اٹھائیں تو اسے انہی کے دہشت گرد و انتہا پسند ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ اظہار رائے کی نام نہاد آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے اس مکروہ عمل سے نفرت و تعصب کی ایسی آگ بھڑکی، جس سے خود یورپ میں کئی انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انبیائے کرامؑ اور دیگر مذہبی شخصیات کے تقدس کی حفاظت کیلئے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ اظہار رائے کی آزادی جمہوریت کا حسن ضرور ہے۔ لیکن جس فعل یا قول سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں یا انہیں شدید صدمہ پہنچتا ہو تو دنیا کا کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یورپی عدالت کے معزز ججوں نے بھی اپنے فیصلے میں امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام ضروری قرار دیا۔ جبکہ انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کا حدود اربعہ بھی متعین کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ شتر بے مہار بننے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ پھر مسلمانوں کی اپنے پیارے نبیؐ کے ساتھ جو والہانہ عقیدت و محبت ہے، دنیا کے تمام انصاف پسند حلقوں اور امن عالم کے خواہشمندوں کو اسے مدنظر رکھنا چاہئے۔ یورپی عدالت کے اس تاریخی فیصلے نے اب عالمی قانون سازی کا رخ متعین کر دیا ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک خصوصاً پاکستان کو اس حوالے سے عملی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ باقی اسلام کا راستہ روکنے کی ان بھونڈی کوششوں کے باوجود دین حنیف کے سایہ عاطفت میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آ سکتی۔ یہ علم و حکمت کا زمانہ (Age of Wisdom) ہے۔ لوگ خصوصاً مغرب کے باشندے تحقیق و جستجو اور طویل مطالعے کے بعد حق و باطل کا فرق خود ہی جان لیتے ہیں۔ اسلام کے علاوہ دنیا کے کسی مذہب کے پاس موجودہ دور کے جدید ذہن میں جنم لینے والےسوالات کے جوابات نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو عالمی شہرت یافتہ شخصیات بھی حلقہ بگوش اسلام ہوتی نظر آتی ہیں۔ جمعرات کے روز ہی نامور آئرش گلوکارہ سینیڈ اکونور نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کر لیا۔ ٭
٭٭٭٭٭