قصہ مختصر… اعلیٰ حکام کے حکم کے مطابق میں موغادیشو سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی چلا گیا۔ نیروبی کے ایئر پورٹ پر وہاں کے مسلمان میرے استقبال کیلئے موجود تھے۔ میں ان سے پہلی بار مل رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ ہوٹل جانے سے قبل انہی مسلمانوں میں سے ایک کے گھر کی دعوت قبول کر لوں، جو کہ انہوں نے میری آمد سے قبل ہی ترتیب دی تھی۔
نیروبی میں کچھ عرصہ گزرنے کے بعد مرکزی آفس سے ایک دوسرے ٹیلی گراف کے ذریعے مجھے خبر دی گئی کہ سیکورٹی نقطہ نگاہ سے میں آئندہ صومالیہ کا نام بھی زبان پر نہ لاؤں، اس خبر پر مجھے شدید حیرانی ہوئی کہ آخر صومالیہ میں میری زندگی کو کیوں کر خطرات لاحق ہیں۔ مجھے ٹیلی گراف میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر تمام احکامات کے باوجود میں نے صومالیہ جانے کی کوشش کی تو مجھے مرکزی آفس کے حکام کے شدید نوعیت کے رد عمل کا انتظار کرنا چاہیے۔ جرمنی میں میرے والدین کو بھی غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ ان کے ذہنوں کو میرے بارے میں مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا تھا۔ بالآخر مجھے میرے والد کی جانب سے بھی ایک ٹیلی گراف موصول ہوا، جس میں مجھے فوری طور پر جرمنی آنے کا حکم دیا گیا تھا۔
میرا ذہن منتشر تھا، میرے ذہن اور دل کو اطمینان بخش جواب دینے کیلئے کوئی بھی میرے پاس موجود نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے ہر پہلو پر خوب سوچ بچار شروع کر دیا، جرمنی پلٹ کر وہاں کی آرام دہ زندگی اور صومالیہ کے پیچیدہ حالات کے درمیان فرق تلاش کرنے لگا۔ اپنے دماغ میں ابھرنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے اور ہیجانی کیفیت سے باہر نکلنے سمیت صومالی مسلمانوں کے شفاف اور صادق چہروں نے مجھے انتہائی فیصلہ کرنے پر مجبور کیا۔ مجھے محمد باہور کے والد سے ان تمام سوالات کے جوابات سننے تھے، جو کہ طوفان بن کر میرے ذہن میں اٹھے تھے۔ چنانچہ انتہائی فیصلے سے قبل خدا سے دعا کی کہ مجھے سیدھا راستہ دکھا دے، یہ کہہ کر میں نے قلم کاغذ لے کر اپنے جرمنی کے مرکزی آفس کو ٹیلی گراف میں لکھا:
’’آپ لوگ مطمئن رہیں، میں نے پوری فکر اور تحقیق کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اسلام قبول کرنے جا رہا ہوں، جو آپ سے ہو سکتا ہے، وہ آپ کر لیں۔‘‘
ہر طرح کے وسوسوں سے نکلنے کی غرض سے اس متن کو فوری طور پر اپنے مرکزی آفس ٹیلی گراف کر دیا۔ ٹیلی گراف کرنے کے بعد مجھے انتہائی سکون حاصل ہوا۔ میں نے خوشی اور مسرت سے اپنے نیروبی کے دوستوں کو اپنے مسلمان ہونے کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی قیمت پر صومالیہ ضرور جاؤں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ صومالیہ جانے کیلئے میرے پاس رقم موجود نہ تھی۔ چنانچہ تن کے جوڑے کے علاوہ دیگر تمام چیزیں فروخت کر دیں اور موغادیشو پہنچنے کے بعد سیدھا محمد باہور کے گھر چلا گیا۔
محمد باہور کے والد کو دیکھ کر السلام علیکم کہا، جس پر انہوں نے مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور میرے آنے پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔ اس دوران میں نے دھیمی آواز میں کلمۂ شہادت پڑھا، جس پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے بعد میرے پاس تفریح کیلئے کوئی وقت نہیں تھا۔ پورا پورا دن تلاوت قرآن اور احادیث پاک یاد کرنے میں صرف ہوتا۔ صومالیہ کے حکومتی اداروں نے میرے لیے صومالیہ میں قیام کی اجازت حاصل کر لی اور اس کے بعد میں بھی صومالیہ کا ایک شہری بن گیا۔ میرا نام عبد الجبار رکھا گیا اور اب مجھے کسی سے بھی ملنے سے کوئی منع نہیں کر سکتا تھا۔ آج اپنی سابقہ زندگی کو یاد کرتا ہوں کہ مجھے مسلمانوں کو مرتد بنانے کیلئے صومالیہ بھیجا گیا تھا، لیکن رب تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں خود اسلام کی دولت سے مالا مال ہو گیا۔
صومالیہ کی شہریت حاصل کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ بحیثیت ڈاکٹر صومالیہ میں آنکھوں کے موذی مرض میں مبتلا لوگوں کا علاج کروں۔ چنانچہ آج میں پوری توجہ کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہوں، لیکن شکر کا مقام ہے کہ اس بار میں یہ خدمت خدا کی رضا کیلئے انجام دے رہا ہوں۔
٭٭٭٭٭
Prev Post