حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی

0

سید ارتضی علی کرمانی
مختصر یہ کہ مرزا ملعون کے اس دعویٰ باطل نے پوری امت مسلمہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ تمام علمائے اسلام اور دانشور اس کی مخالفت میں متفق ہوگئے اور قادیانیوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے اپنی تصانیف اور مواعظ کے ذریعہ عامۃ المسلمین کو اس قدر باخبر کر دیا کہ قادیانیت کی تبلیغ اس ملک میں بالکل بے اثر ہوکر رہ گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اگر مرزا معلون کو سرکاری سر پرستی حاصل نہ ہوتی تو اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو اس سے قبل مدعیان نبوت کا اہل اسلام کے ہاتھوں ہو چکا تھا۔
اس سلسلے میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کی جماعت احرار، مولوی ثناء اللہ امر تسریؒ، مولانا ظفر علی خانؒ مدیر روزنامہ ’’زمیندار‘‘ علامہ محمد اقبالؒ اور حضرت صاحبؒ کے علاوہ آپ کی مخلص مولوی محرم علی چشتی مدیر اخبار ’’رفیق ہند‘‘ لاہور اور قاضی سراج دین مدیر اخبار ’’چودھویں صدی‘‘ روالپنڈی نے خاص طور پر کام سر انجام دیئے۔
حضرت جی اور قادیانیت
جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ 1890ء میں جب حجاز مقدس بغرض فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے قیام پذیر تھے تو آپ نے حجاز مقدس میں مستقل قیام کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ مگر حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے بنا برکشف آگاہ ہوکر فرمایا تھا کہ عنقریب سرزمین ہند میں ایک فتنہ عظیم ظاہر ہونے والا ہے۔ جس کا سدباب آپ کی ذات سے متعلق ہے۔ اگر اس وقت آپ اپنے وطن میں خاموش بھی بیٹھے رہے تو بھی ملک کے علماء اس فتنہ کی زد سے محفوظ رہیں گے۔ چنانچہ محض ایک سال بعد ہی یعنی 1891ء میں مرزا نے خود کو مناظر اسلام، مامور اور مجدد کے دعوؤں سے آگے قدم بڑھا کر پہلے مسیح موعود پھر نبی ہونے کا دعویٰ کر ڈالا۔
حضرت پیر سید مہر علی شاہؒ کی ایک خود نوشتہ یادداشت آپ کے قدیم مسودات میں پائی جاتی ہے۔ ملا خطہ فرمائیے۔
’’جن دنوں مرزا غلام احمد قادیانی نے بظاہر تحقیق حق کی غرض سے اشتہارات کے ذریعے دعوت دی تھی اور میں اسے منظور کرنے ہی کا ارادہ کررہا تھا۔ مجھے اس نعمت عظمٰی کا شرف حاصل ہوا۔ میں اپنے حجرہ میں بحالت بیداری آنکھیں بند کیے تنہا بیٹھا تھا کہ میں نے حضور اقدسؐ کو دیکھا کہ قعدہ کی حالت میں جلوس فرما ہیں اور یہ عاصی بھی چار بالشت کے فاصلے پر اسی حالت میں بادب شیخ کی خدمت مرید کی حاضری کی طرح بالمقابل بیٹھا ہے اور غلام احمد اس جگہ سے دور مشرق کی طرف منہ کیے آنحضرتؐ کی طرف پشت کیے بیٹھا ہے۔ اس رویت کے بعد میں بمعہ احباب لاہور پہنچا، مگر مرزا اپنے تاکیدی وعدے سے (بمثل انکار کرنے اور پھیر جانے والے پر لعنت ہو) پھیر گیا اور لاہور نہ آیا۔‘‘ سرسید احمد خان صاحب بھی ابتدا میں مرزا کے لیے دل میں نرم گوشہ ہی رکھتے تھے، مگر آخر کار انہوں نے بھی مرزا کی تکذیب فرمائی۔ اس طرح ایک اہل حدیث عالم دین مولانا محمد حیسن بٹالوی نے اپنے جریدہ ’’اشاعت السنۃ‘‘ کے چھ نمبروں میں براہیں احمدیہ پر ایک طویل تقریظ شائع کر کے اس کتاب کو صدی کا شاہکار اور مرزا کو ایک بے نظیر عالم دین اور صاحب کشف و کرامت ولی قرار دے چکے تھے۔ اسی طرح چاچڑاں بہاولپور کے مشہور شیخ طریقت اور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید چشتی بھی ابتدا میں مرزا کے متعلق بہت حسن ظن رکھتے تھے اور جن کا نام کافی عرصہ تک قادیانی بطور مثال لیتے رہے، حالانکہ انہوں نے بھی درج بالا بزرگوں کی طرح اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More