وزیر خانم کا قلعہ معلی میں شاندار استقبال کیا گیا

0

وہ 14 محرم الحرام بمطابق 24 جنوری 1845ء کی سرد لیکن سہانی، دھند اور ہلکے پُر اسرار، میٹھے دھویں میں لپٹی ہوئی شام تھی جب بعد نماز مغرب عمدہ خانم، نواب مرزا، امۃ الفاطمہ اور مولوی محمد نظیر رفاعی مجددی نے آرزوؤں اور امیدوں بھرے دل کے ساتھ چھوٹی بیگم وزیر خانم کو قرآن کے سائے میں نالکی پر سوار کرایا۔ اکبری خانم اسی نالکی میں دلہن کے ساتھ سوار ہوئیں۔ پیچھے پیچھے دوسری پالکی پر حبیب النسا زیورات کی قطی اور کپڑوں کے صندوق کے ساتھ تھیں۔ شاہ محمد آغا مچلے ہوئے تھے کہ ہم ساتھ جائیں گے، لیکن بڑی بیگم کی مغلانی نے انہیں بہلا پھسلا کر بازار کی سیر کرنے کے لئے مولوی نظیر کے ایک خادم اور ایک مرید کے ساتھ بھیج دیا۔ بڑی بیگم کے آنسونہ تھمتے تھے۔ لیکن خوشی کے آنسو تھے کہ آج اللہ نے یہ دن نصیب کیا کہ میں خود پوری چاہ اور ارمان کے ساتھ چھوٹی کو سجا بنا کر دلہن بنا کر اس کے دولہا کے گھر بھیجوں۔ کوئی بابل گانے والیاں نہیں ہیں تو نہ سہی، لیکن دل تو میرا غمگین بھی ہے اور خوش بھی ہے۔ آج اماں اور ابا جان ہوتے تو انہیں جو دکھ چھوٹی نے دیئے تھے، ان کا معاوضہ وہ اس مبارک تقریب کی صورت میں ملتا دیکھ کر کس قدر خوش ہوتے اور مجھے اور چھوٹی کو کتنی دعائیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ یہ جوڑا
سلامت رکھے اور مجھے طاقت دے کہ شاہ محمد آغا کو خوب درستی کے ساتھ پالوں پوسوں۔ مدتیں ہوگئیں، جب سے فاطمہ بڑی ہوئی میں نے کسی بچے کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ یہ اللہ ہی ہے جو میری عزت رکھ لے۔
قلعہ معلیٰ کے اندر شاہی محلات کی طرف جانے والی راہ کے دروازے پر قلماقنیوں، اردا بیگنیو اور ترکنوں کی ایک فوج کی فوج استقبال کو کھڑی تھی۔ انہوں نے نالکی کو ہر طرف سے گھیر لیا اور بعض ہمت والیوں نے کچھ چلبلا پن دکھاتے ہوئے نالکی کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر اندر دیکھا اور تحسین کے الفاظ کہتی ہوئی پیچھے ہٹ گئیں۔ ایک نے ذرا اور ہمت کی اور اپنے پاس والی سے ہنس کر کہا: ’’اے سبحان اللہ، سردیوں کا چاند تو دھندلا سنا اور دیکھا تھا، پر یہ تو سرد پونم کا چاند ہے کہ دیکھتے ہی جی نہال ہوجائے‘‘۔
’’ہاں بی بی، کالے گلاب سا پڑا دہک رہا ہے‘‘۔
’’اری کمبختیو جلد جسولنی کو مہابلی کے محل میں بھیجو، کہلا دو کہ چندے آفتاب چندے ماہتاب بہو بیگم تشریف لاچکی ہیں‘‘۔
مہابلی دیر گئے سکھ کرنے تشریف لے جاتے تھے، لیکن عموماً بعد نماز مغرب کسی کو باریاب نہ کرتے تھے۔ اس بار حکم خاص تھا کہ اگر دلہن کے مقدم میں بہت دیر نہ ہوئی ہو تو ہمیں اطلاع پہنچائی جائے۔ دلہن ہم سے منہ دکھائی لے کر اپنے محل میں تشریف لے جائیں۔ حسب الحکم ایک جسولنی تیز تیز تسبیح خانے کی طرف گئی۔ نالکی بردار نالکی کو یوں ہی لئے کھڑے رہے۔ استقبال کرنے والیوں میں بعض جو زینت محل کے لئے مخبری بھی کرتی تھیں، ایک ایک بات کو غور سے ذہن نشین کر رہی تھیں کہ کس کس نے دلہن کی تعریف کی، کس نے کوئی خاص دلچسپی نہ دکھائی، اور کتنی خصوصی طور پر مستعدی دکھا رہی تھیں۔
ذرا سی دیر میں مرزا فتح الملک بہادر آگے آگے اور جسولنی پیچھے پیچھے آتے دکھائی دیئے۔ جسولنی نے آکر حکم سنایا کہ مہابلی بدولت و اقبال دلہن بیگم کو یاد فرماتے ہیں۔ اب یہ قافلہ آگے بڑھا اور دروازہ تسبیح خانہ پر آکر نالکی برداروں نے دلہن کی نالکی ایک سنگ مرمر کی چوکی پر رکھ دی، جو دروازے کے سامنے بنی ہوئی تھی۔ مرزا فخرو نے چاہا کہ دلہن کو گود میں لے کر نالکی سے اتاریں کہ دو نہایت قوی ہیکل، عمر رسیدہ لیکن کسے ہوئے بدنوں والی حبشنوں نے آگے بڑھ کر ہنستے ہوئے غایت بے تکلفی سے کہا: ’’اے ہے صاحب عالم ولی عہد بہادر، اتنے اتاولے ہوئے جاتے ہیں۔ نالکی سے اتارنا تو ہمارا کام تھا، اور ہم غریبوں کے نیگ تو ارزانی ہوجاتے، نہیں تو آپ کی بیگما نالکی ہی میں اٹکی لگی رہیں گی‘‘۔
اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ لیکن مرزا فخرو اتنی آسانی سے خفیف ہونے والے نہ تھے۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا: ’’یاقوت النسا، تم نہ جانے کتنی دلہنوں کو پار گھاٹ لگا چکی ہو، کبھی ہم کو بھی موقع دیتیں‘‘۔
’’سرکار آپ کے تو موقعے ہیں، ہاں زر کامل ہم مفلسوں کے ہاتھ بھلا روز روز کہاں لگے ہے‘‘۔
ان دونوں فقروں پر کئی جانب معنی خیز مسکراہٹیں بھی ہوئیں۔
’’بھئی ہم تو قوم آفاق کے ترک ہیں۔ کسی کو اپنے مال میں ہاتھ لگانے نہیں دیتے‘‘۔
’’مرشد زادہ آفاق کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم اٹھا کر آپ کے ہاتھ میں دیویں جب تو وہ مال آپ کا ہووے گا‘‘۔
’’بی بی یہ تو عطیہ خداوندی ہے، کوئی پیڑ سے ٹپکا ہوا پھل تھوڑی ہے کہ آپ اٹھا کر کسی کو دے ڈالیں‘‘۔ مرزا فخرو بہادر نے ہنس کر کہا۔
’’سر کار قسم لے لیں تیسوں کلام کی میں نے نالکی میں جھانکا تو آنکھیں چوندھیا گئیں۔ پیڑ سے ٹپکے پوئے پھل کا کیا مذکو رہے۔ مجھے لگا اللہ پاک نے چھیکنے میں بجلی بھر کر لٹکوادی تھی، پھر قدرت خداوندی سے ہوائے وصال چلی…‘‘۔
’’… اور وہ چھینکا ٹوٹ کر جناب کے دامن پاک میں آرہا‘‘۔ زیتون آرا نے جملہ پورا کیا۔
اس پر پھر زور کا قہقہہ لگا۔ قہقہے میں مرزا فتح الملک بہادر بھی شریک تھے۔
’’آپ بی بی بلائی ہونٹ چاٹا کریں‘‘۔ جب ہنسی کچھ تھمی تو شہزادے نے کہا۔ ’’چھینکا تو جہاں پہنچنا تھا پہنچ چکا‘‘۔
اس اثنا میں مرزا فخرو بہادر کی اردا بیگنی سارے مجمعے میں پانے والیوں کی حیثیت کے موافق روپئے اور سونے کے چھلے بانٹ رہی تھی۔ تقسیم ابھی جاری تھی کہ تسبیح خانے کا پردہ کھنچا اور قلماقنی نے پکارا: ’’اعلیٰ حضرت دولہا دلہن کو طلب فرماتے ہیں‘‘۔
یاقوت اور زیتون نے جھٹ آگے بڑھ کر نالکی کا دروازہ پورا کھولا اور وزیر کو، جو زرق برق لیکن سمٹی ہوئی سی بیٹھی تھی، بآسانی ہاتھوں پر اٹھا کر نالکی کے باہر لے لیا۔ ’’بسم اللہ، قرآن درمیان، چادر لاؤ‘‘ کی آوازوں کے ساتھ چار عورتوں نے ایک بڑی چادر زر نگار پھیلا کر سایہ کرلیا۔ اس طرح یاقوت اور زیتون کی گود میں گٹھری سی بنی ہوئی وزیر خانم چادر کے نیچے لائی گئیں اور یہ جلوس آہستہ آہستہ تسبیح خانے کی طرف چلا۔ حبیبہ کی پالکی کو دو اردابیگنیاں اپنے ساتھ لے کر ولی عہد سوئم کی ڈیوڑھی پر چلی گئیں۔ ادھر تسبیح خانے کی دہلیز پار کرکے یا قوت اور زیتون نے وزیر خانم کو بآہستہ گود سے اتارا اور سہارا دے کر آگے بڑھنے کا اشارہ دیا۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More