فوجی جیپ تیزی سے ایک گھر کے سامنے آکر رکتی ہے، درشت چہرے لئے فوجی جوان چھلانگ لگا کر نیچے اترتے ہیں اور رائفل ہاتھ میں لے کر چوکس پوزیشن لے لیتے ہیں، رائفلوں پر ان کے ہاتھوں کی گرفت اور آنکھیں سے جھلکتی درشتگی بتا رہی تھی کہ وہ رائفل کی لبلبی دبانے میں ذرا نہیں ہچکچائیں گے۔ جیپ سے ایک نوجوان افسر بھی نیچے اترتا ہے اور ہاتھ سے ایک جوان کو دروازے کی طرف اشارہ کرتا ہے، جوان رائفل سنبھالتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھتا ہے اور پھر قبل اس کے کہ وہ دروازے پر فوجی بوٹ سے دستک دیتا، دروازہ کھلتا ہے اور ایک بوڑھا شخص باہر نکل آتا ہے، اس کے پیچھے بچے اور دو تین خواتین بھی ہوتی ہیں۔
’’کیا بات ہے صاب؟‘‘ بوڑھے نے طائرانہ نظروں سے سب کا جائزہ لینے کے بعد فوجی افسر پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے سوال کیا۔ اس کے لہجے میں ذرا بھی خوف نہیں تھا۔
’’اسفاق آیا تھا؟‘‘ فوجی افسر نے کڑک دار لہجے میں پوچھا۔
’’وہ یہاں نہیں آتا۔‘‘ بوڑھے نے لمبے سے کرتے کی جیب سے ہاتھ نکالتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہمارے پاس انٹیلی جنس ہے کہ اس کا آپ سب برابر رابطہ ہے، چار روج پہلے بھی آیا تھا اور صبح ہونے سے پہلے جنگل کی طرف نکل گیا، دیکھیں میری بات کو سمجھنے کی کوسس کریں، اسے سمجھائیں، اپنا نہیں تو اپنے کھاندان کا کھیال کرلے، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔‘‘
’’کیا کرے وہ؟‘‘ بوڑھے کے پیچھے سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔ اس سارے منظر کو موبائل فون سے عکس بند کرنے والے نے سیل فون کے کیمرے کا رخ اس خاتون کی طرف کر دیا، وہ بوڑھے کے پیچھے سے نکل کر سامنے آگئی۔ اس نے بھی موٹا سا فرن پہن رکھا تھا۔ یہ کشمیر کا مخصوص لباس ہے، اس ڈھیلے ڈھالے کرتے کے بغیر کشمیر کی سردیاں ہڈیوں میں گودا جما دیتی ہیں، کشمیری اس کرتے کے اندر ایک چھوٹی سی انگیٹھی پیٹ سے باندھے رکھتے ہیں، جس پر پڑا فرن انہیں شدید موسم کے قہر سے بچاتا ہے۔
’’اسے کہو کہ ہتھیار ڈال دے، اسی میں اس کا بھلا ہے، اسے معافی…‘‘ اس فوجی افسر کے یہ الفاظ منہ میں ہی رہ گئے، وہ خاتون کسی شیرنی کی طرح گرجی: ’’ہتھیار ڈال دے… اور یہ ہم اس سے کہیں کہ ہتھیار ڈال دے! وہ ایسا کرکے آئے تو سہی، گھر میں گھسنے سے پہلے میں اس کے سینے میں گولی مار دوں گی، میرا بھائی مجاہد ہے، اس نے ہتھیار ڈالنے کے لئے نہیں اٹھائے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، پھر انتظار کرو اس کی لاش کا۔‘‘
’’اور ہم کر ہی کیا رہے ہیں، ہمیں اس کی شہادت ہی کا انتظار ہے، جو شہید نہیں ہوتے، وہ بھی مر جاتے ہیں، اگر وہ اللہ کی راہ میں مارا گیا تو اس سے زیادہ خوش نصیبی کی بات کیا ہوگی۔‘‘ عجیب بے خوف لڑکی تھی، فوجی افسر نے پھر اسے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن وہ کچھ سمجھنے کو تیار ہی نہ تھی۔ یہ ویڈیو کلپ ایک دوست نے سیلانی کو واٹس اپ کے ذریعے جنت ارضی پر کافروں کے قبضے کے اکہتر برس پورے ہونے پر بھیجا تھا۔ اس کلپ سے مقام کا پتہ
چلتا ہے نہ تاریخ کا۔ اس فیملی کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے اور نہ ہی اس کشمیری مجاہد کے بارے میں کہ وہ اپنی مراد کو پہنچا یا ابھی تک شہادت کی تمنا میں سعادت کی زندگی جی رہا ہے۔ اس کے باوجودیہ ادھوری ویڈیو کشمیریوں کے پاکستان سے محبت اور ہندوستان سے نفرت کا مکمل ابلاغ کر رہی ہے۔
یہ ایک اور ویڈیو کلپ سیلانی کے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ہے۔ یہ ڈاکٹر کرن سنگھ کی بھارتی لوک سبھا میں تقریر ہے۔ اگست 2016ء میں پتلا دبلا ڈاکٹر کرن سنگھ بھارت کی راجیہ سبھا میں انگریزی میں تقریر کر رہا ہے۔ راجیہ سبھا میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے، سب غور سے سن رہے ہیں، صرف ڈاکٹر کرن سنگھ کی آواز سنائی دے رہی ہے، جو کہہ رہا ہے: ’’ستائیس اکتوبر کے دن میں اسی کمرے میں موجود تھا، جب معاہدے پر دستخط ہوئے، تاہم سب لوگ کان دماغ کھول کر یہ بات سن لیں اور یاد رکھیں کہ میرے والد نے صرف تین نکات پر دستخط کئے تھے، انہوں نے دفاع، مواصلات اور امور خارجہ بھارت کے حوالے کئے تھے اور یہ ویسا ہی معاہدہ تھا جیسا دیگر ریاستوں نے بھی کیا تھا، اس وقت تمام ریاستیں بھارت میں شامل ہو چکی تھیں، لیکن کشمیر نہیں ہوا تھا اور اس بات کا ثبوت بھارت کے آئین کی شق 370 سے بھی ملتا ہے، جس کے تحت کشمیر بھارت کا حصہ نہیں، بلکہ اسے زیر انتظام علاقے کا درجہ دے رکھا ہے، اس بات کو میں نے ہی دستخط کرکے آئین کا حصہ بنایا تھا، ہاں! بھارت کشمیر کا اٹوٹ انگ ہو سکتا ہے، مگر ایک بات یاد رکھنی چاہئے، صحیح یا غلط… میں سیاست میں نہیں پڑتا، مگر اس وقت جموں کشمیر کی اصل صورتحال یہ ہے کہ یہ بھارت کا حصہ نہیں، محض ایک زیر انتظام علاقہ ہے‘‘۔
یہ گواہی دینے والا شاعر، سابق بھارتی وفاقی وزیر، سفیر ڈاکٹر کرن سنگھ کوئی عام شخص نہیں ہے، وہ بٹوارے کے وقت کشمیر اور بھارت کے مابین ہونے والے اس معاہدے کا عینی شاہد ہے اور عینی شاہد بھی وہ جو کہ مہاراجہ ہری سنگھ کا کوئی وزیر یا درباری نہیں کہ اسے استعمال شدہ ٹشو پیپر مان کر تاریخ کے کچرہ دان میں ڈال دیا جائے۔ یہ پتلا دبلا شخص مہاراجہ ہری سنگھ کا سگا بیٹا اور اس کا خون ہے۔ کانگریس کے پلیٹ فارم سے وہ بھارتی پارلیمان کا رکن منتخب ہو کرصحت، خاندانی منصوبہ بندی، سول ایوی ایشن، تعلیم اور کلچر کا وزیر بھی رہ چکا ہے۔ یہی نہیں، جموں کشمیر کا گورنر جنرل بھی رہ چکا ہے۔ یہ سب کچھ نہ بھی ہوتا تو بحیثیت ہری سنگھ کے بیٹے کے اس کی بھارتی پارلیمان
میں شہادت ہر دستاویز اور آئین پر بھاری تھی۔ کرن سنگھ کی اس گواہی کے بعد بھارت کس طرح کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ پکار سکتا ہے؟ لیکن بھارت ایسا کر سکتا ہے، چانکیہ کے چیلے اور درپردہ راج کرنے والے براہمن بظاہر کسی ومپائر کی طرح کشمیر کا لہو چوس رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت خود بھارت کے جسم پر لگے گھاؤ سے خون رس رہا ہے۔ کشمیر خود بھارت کے لئے ناسور بن چکا ہے۔ بھارتی میگزین آؤٹ لک کے مطابق بھارت کو یومیہ چھ کروڑ روپے اپنے زیر انتظام کشمیر کے امن و امان پر خرچ کرنے پڑتے ہیں، یومیہ چھ کروڑ… ماہانہ ایک ارب اسّی کروڑ جو سال کے 2160 کروڑ روپے بن جاتے ہیں۔ لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ فوج رکھ کر بھارت اکہتر برسوں میں کشمیریوں کو سیدھا کرنے کی کوشش میں الٹا لٹک گیا ہے، وہ نہ انہیں سیدھا کر سکا اور نہ ان کے دل جیت سکا۔ آج ان کا افسر کسی ’’آتنگ وادی‘‘ کی بہن سے اسے سمجھانے بجھانے، ہتھیار رکھنے کی بات کرتا ہے تو وہ تڑپ کر کہتی ہے کہ وہ کلاشنکوف رکھ کر تو آئے، اس کے سینے میں گولی میں ماروں گی… کشمیر میڈیا سروس کی ویب سائٹ پر جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1989ء سے ستمبر2018ء تک 95117 کشمیری شہید ہو چکے ہیں، 22887 سہاگنیں پاکستان پر اپنا سہاگ وار چکی ہیں، 107735 بچے یتیم ہو چکے ہیں، اس کے باوجود کشمیریوں کے ہاتھوں سے سبز ہلالی پرچم نہیں چھینا جا سکا، کشمیری اپنے گھروں میں سفید کفن کے ساتھ سبز ہلالی پرچم بھی چھپا کر رکھتے ہیں کہ اب کشمیر میں شہداء کے جنازوں کے لئے سبز ہلالی پرچم ناگزیز ہو چکے ہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے سیلانی کی نظر سامنے دیوار گیر گھڑی پر جا پڑی، جس کی سوئیاں بارہ بجانے کو تھیں، اسے یاد آیا کہ آبپارہ میں جماعت اسلامی نے کشمیریوں پر مظالم کے خلاف احتجاجی پروگرام ترتیب دے رکھا ہے۔ جماعت اسلامی اور جماعت الدعوہ ان جماعتوں میں سے ہیں، جو تکمیل پاکستان کے لئے عملاً حصہ ملا رہی ہیں، تکمیل پاکستان کے لئے ان کی پکار قائد اعظم کے فرمان کی یاد دہانی ہے۔ سیلانی نے قائد اعظم کی آواز پر لبیک کہنا تھا، اس نے تحریر سمیٹی اور آبپارہ پہنچ گیا، جہاں ہزاروں نوجوان اور مائیں بہنیں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے جمع تھے۔ ان کے ہاتھوں میںاحتجاجی بینر، پوسٹر اور سبز ہلالی پرچم تھے، پرجوش نوجوان بلند آواز سے تکبیر کی صدا لگاتے ہوئے لہو گرما رہے تھے۔ سیلانی کے کانوں میں بھی آواز آئی:
تیرا میرا رشتہ کیا؟
آس پاس موجود لوگوں نے آواز سے آواز ملاتے ہوئے جواب دیا:
لا الہ الا اللہ…
پھر اسی نوجوان کی آواز بلند ہوئی:
کشمیریوں سے رشتہ کیا؟
اور اس بار سیلانی کے بھی لب ہلے:
لاالہ الا اللہ…
سیلانی پر زور نعروں کا جواب دیتے ہوئے کشمیریوں کے جذبۂ حریت کی حمایت کرتا رہا اور وہاں موجود کشمیریوں کے پشتیبانوں کو دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
٭٭٭٭٭
Next Post