اقتصادی زبوں حالی سے نجات کے امکانات

0

پاکستان میں چین کے سفیر یائو جنگ اور نائب سفیر یائولی جیان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کچھ قوتوں کو پاکستان اور چین کے درمیان قائم گہری دوستی، تعاون اور تعلقات کھٹکتے ہیں۔ سی پیک کے پاکستان کے لیے اقتصادی بوجھ ہونے کا تاثر دیا جا رہا ہے، جو بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ چین اس سلسلے میں تمام خدشات اور تحفظات دور کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ منصوبہ صرف چین کے لیے فائدہ مند نہیں، بلکہ پاکستان کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوگا۔ چین پاکستان کو خطے کا ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی سے خطے کے دوسرے ممالک میں بھی خوش حالی آئے گی۔ ہم ابھرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں سرمایہ کاری کو بڑھائیں گے اور چین کی پالیسی یہ ہے کہ ’’پاکستان سے خریدو اور اس کو اپنا مال بیچو۔‘‘ پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے اور عوام کو خوشخبری دیں گے۔ پاکستان کو دو ارب ستر کروڑ ڈالر پہلے ہی دے چکے ہیں، مزید بڑی امدادی رقوم اور قرضے فراہم کریں گے۔ چینی سفیر نے بتایا کہ سی پیک کے بائیس منصوبوں پر انیس ارب ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ چینی کمپنیوں کے قرضوں پر سود کی شرح چودہ فیصد نہیں، پانچ اور چھ فیصد ہے۔ آسان شرائط پر دیئے جانے والے ان قرضوں کی مدت ادائیگی سات سال ہے۔ انرجی کے تمام منصوبے 2022ء تک مکمل ہو جائیں گے۔ بائیس منصوبوں میں اب تک پچھتر ہزار پاکستانیوں کو روزگار مل چکا ہے اور 2030ء تک مزید سات لاکھ پاکستانیوں کو روزگار مل جائے گا۔ بلوچ نوجوان گوادر کی ترقی میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ چینی سفیر اور نائب سفیر کے اس طویل بیان اور وضاحتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان لازوال تعلقات کو سازشی عناصر اور بیرونی قوتیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ پاکستان کی امداد، قرضوں اور سی پیک کے دوسرے مرحلے کا اعلان کرتے ہوئے چین نے صنعتی زون قائم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ چینی حکومت اور عوام وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ چین کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی اہم معاہدوں پر دستخط ہوں گے۔ یاد رہے کہ عمران خان وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کے دو دورے کر چکے ہیں، جن کے نتیجے میں سعودی حکومت نے پاکستان کو فوری طور پر تین ارب ڈالر دیئے اور اس کے بعد تین مرحلوں میں ایک ایک سال کے لیے تین ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے کا اعلان کیا ہے۔ چین کے نئے خوش آئندہ اعلانات سے پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو مزید سہارا ملنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان ملائیشیا کے دورے پر جائیں گے، جہاں وہ مہاتیر محمد سے ملاقات کر کے پاکستان کی اقتصادی صورت حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔ ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی مسلم ممالک پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے تیار ہیں۔ اس بنا پر توقع کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے سخت شرائط پر قرضہ لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ مسلم اور دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کی پیشکش کے بعد آئی ایم ایف پہلے ہی نرم شرائط پر قرضہ دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔ نئی حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ بیرونی ممالک اور مالیاتی اداروں سے امداد نہیں، قرضے حاصل کئے جا رہے ہیں، جنہیں صاف و شفاف طریقے سے سابقہ قرضوں کی ادائیگی اور ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ حکومت نے یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ آئندہ شاید آئی ایم ایف یا کسی اور سے قرضے لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ حکومت کے اعلانات اور وضاحتوں کے حوالے سے قوم صرف یہ چاہتی ہے کہ وہ اپنے وعدوں اور دعوئوں پر قائم رہے اور اپنی ’’یوٹرن‘‘ کی پالیسی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دے۔ صرف اسی صورت میں عوام کا اس پر اعتماد قائم برقرار رہ سکتا ہے اور ملک اقتصادی زبوں حالی سے نجات پا سکتا ہے۔
کراچی سے تجاوزات اور گندگی کا خاتمہ ہو سکے گا؟
چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے پندرہ دن کا نوٹس دیتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کی مشترکہ ٹیم بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔ انہوں نے کنٹونمنٹ بورڈز اور رینجرز کو بھی تعاون کی ہدایت دی ہے۔ کراچی سے تجاوزات ہٹانے کا آغاز صدر سے کیا جائے گا۔ اس سے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بنچ نے کراچی میں پارکوں اور سرکاری اراضی پر قبضے کے معاملے کی سماعت کی۔ فاضل چیف جسٹس نے پاکستان کوارٹرز میں سرکاری عمارتوں کو تجاوزات کے نام پر ہٹانے کا نوٹس لیتے ہوئے میئر کراچی وسیم اختر سے پوچھا کہ آپ نے کراچی میں اتنا بڑا ہنگامہ کیوں کرا دیا؟ خدا کا خوف کریں۔ کیا شہر میں پھر لسانی فسادات کرانا چاہتے ہیں؟ آپ مجھے نالے دکھانے لے گئے تھے اور کہا تھا کہ وہ صاف ہو جائیں گے۔ کیا کچھ صاف ہوا؟ یہ گندگی کراچی پر ایک بدنما داغ ہے۔ وسیم اختر نے عدالت سے کہا کہ ہم کارروائی کررہے ہیں، کنٹرول اب میرے پاس ہے۔ ہم نے شادی ہالز گرا دیئے ہیں اور پارکوں سے تجاوزات ختم کر دیئے ہیں، جس پر جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیئے کہ صدر کا علاقہ آپ نے ٹرانسپورٹ مافیا کو دے دیا ہے، پورے علاقے کا برا حال ہے۔ جہانگیر پارک کے دونوں اطراف آج بھی تجاوزات ہیں تو وسیم اختر نے کہا کہ وہ کنٹونمنٹ کا علاقہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی اور لیاری کے دہشت گردوں نے مل جل کر تباہ و برباد کیا ہے۔ شہر میں درجنوں ادارے ہیں، جو ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ فاضل عدالت نے تجاوزات کے خاتمے اور شہر کی صفائی میں کنٹونمنٹ بورڈز کو بلدیہ کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن خود اس کے زیر اہتمام شہری علاقے تجاوزات اور گندگی کی آماج گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ یہ بورڈز صرف فوجی اور پوش علاقوں پر توجہ دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اس پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔ کافی عرصے قبل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کراچی کو صاف ستھرا شہر بنانے کا حکم دیا تھا، لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا تو آئندہ کراچی پر قابض یہ ادارے، بالخصوص حکومت سندھ اور بلدیہ کیا تیر مار لے گی؟ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More