حضرتمغیرہؓ بن شعبہ نے5ھ میں غزوۂ خندق کے بعد اسلام قبول کیا تھا۔ اس کے بعد یہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔ رسول اقدسؐ کا قرب حاصل ہوا تو آپؐ کی شفقت والتفات سے بہت متاثر ہوئے۔ آپؐ کی ذات سے ایسا والہانہ عشق ہوا کہ پھر زندگی بھر علیحدہ نہ ہوئے۔ تمام شب و روز رسول اقدسؐ کی خدمت میں گزرتے تھے۔ آپؐ کی ذات سے عشق کے ساتھ ساتھ آپؐ کا بے پناہ احترام بھی کرتے تھے۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر (مشرکین مکہ کے ایلچی) عروہ بن مسعود کا ہاتھ رسول اقدسؐ کی داڑھی سے چھو گیا تو انہوں نے فوراً اس کے ہاتھ پر تلوار کا کندہ مار کر کہا کہ’’رسول اکرمؐ سے ادب سے بات کرو‘‘۔
حضرت مغیرہؓ بن شعبہ رسول اکرمؐ کی تجہیز وتکفین کے وقت موجود تھے۔ جب لوگ آپؐ کے جسد اطہر کو قبر مبارک میں رکھ کر نکل آئے تو انہوں نے جان بوجھ کر اپنی انگوٹھی قبر میں گرا دی۔ پھر انہوں نے حضرت علیؓ سے انگوٹھی نکالنے کی اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دے دی تو مغیرہؓ قبر میں اتر گئے، پہلے پائے اقدس کو چھوا، پھر انگوٹھی اٹھائی اور باہر نکل آئے۔
ان کا انگوٹھی گرانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ شرف ان کے ساتھ مخصوص ہو جائے کہ وہ ذات نبوی سے جدا ہونے والوں میں سب سے آخری ہیں۔
حضرت مغیرہؓ بن شعبہ اس بات کو بہت فضیلت کی بات مانتے تھے کہ وہ رسول اقدسؐ سے سب سے اخیر میں جدا ہوئے۔ لوگوں سے کہا کرتے تھے کہ رسول کریمؐ سے سب سے بعد میں جدا ہونے کا فخر انہیں حاصل ہے۔ (طبقات ابن سعد قسم 2 جز 2 ص 77-78)
Prev Post
Next Post