ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
ایک دور میں نوابزادہ نصر اللہ مرحوم اپوزیشن کی سیاست کے سرخیل ہوا کرتے تھے، جب تک وہ حیات رہے، یہ منصب ان کے پاس ہی رہا، آج کل مولانا فضل الرحمن کی آنیاں جانیاں دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ نوابزادہ نصر اللہ مرحوم ٹو بننے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ اور بات ہے کہ مولانا اور مرحوم بابائے جمہوریت میں کوئی ایک چیز بھی مشترک نظر نہیں آتی، نوابزادہ نصر اللہ مرحوم ساری زندگی اپوزیشن میں رہے، وہ جن اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر تحریک چلاتے تھے، حکومت گراتے تھے، وہ جماعت یا جماعتیں جب اقتدار میں آجاتیں، تو مرحوم ان کے ساتھ شامل اقتدار ہونے کے بجائے ان کی بھی اپوزیشن شروع کر دیتے تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شناخت حقیقی اپوزیشن رہنما کی حیثیت سے رہی، انہوں نے سیاست سے نیک نامی کے علاوہ کچھ نہ کمایا، ان کے حامی و مخالف سب ان کی عزت کرتے تھے اور اس کی بڑی وجہ ان کی دیانتداری تھی، مرحوم نام کے ہی نہیں اصلی نواب تھے اور مظفر گڑھ میں بڑی اراضی کے مالک تھے، لوگ سیاست میں آکر مربعوں کے مالک بنتے ہیں اور مرحوم نوابزادہ نصراللہ مرحوم مربع بیچ کر سیاست کرتے رہے، بس یہی دیانتداری ان کی طاقت تھی، انہیں کوئی بلیک میل نہیں کر سکتا تھا، انہوں نے بھٹو سے لے کر پرویز مشرف تک ہر حکمران کی مخالفت کی، ان کے خلاف اتحاد بنائے، تحریکیں چلائیں، لیکن کوئی ان پر کرپشن کا الزام نہ لگا سکا، ان کی جماعت پارلیمانی طور پر اکثر صفر رہتی تھی یا پھر ایک آدھ سیٹ ملتی تھی، لیکن اس کے باوجود ان کا سیاسی وزن بڑی جماعتوں سے بھی زیادہ ہوتا تھا، یہ ان کی دیانتداری اور اخلاص ہی تھا، جو سب جماعتیں ان کی قیادت میں متحد ہو جاتی تھیں۔ انہیں فیصلوں کا اختیار دے دیتی تھیں۔
اب دوسری طرف ان کی جگہ لینے کی کوشش کرنے والے مولانا ہیں، نوابزادہ نصر اللہ کبھی حکومت میں نہیں رہے اور مولانا کا ریکارڈ یہ ہے کہ کسی حکومت سے یہ باہر نہیں رہے، پرویز مشرف ہوں، بینظیر بھٹو، آصف زرداری یا نوازشریف، ہر حکومت کے ساتھ آپ کو مولانا ضرور نظر آئے، مرحوم نوابزادہ نصر اللہ کا ٹریڈ مارک اپوزیشن رہنما ہونا تھا تو مولانا کی سیاسی رجسٹریشن اس کے برعکس اقتدار کی رہی۔ ایسا لگتا تھا کہ مولانا اور سرکار ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ وراثت میں ملنے والے مربع بیچ کر سیاست کرتے رہے، جبکہ مولانا پر پرویز مشرف سے شہدا کوٹے کے مربع لینے کا الزام لگ چکا ہے۔ مرحوم بابائے جمہوریت کبھی کسی عہدے کے پیچھے نہیں بھاگے بلکہ گھر پر آنے والے عہدے بھی لینے سے انکار کردیتے تھے، اس کے برعکس مولانا نے کبھی کوئی عہدہ چھوڑا نہیں۔ اس بار انہیں جب لگ رہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت بن سکتی ہے تو انہوں نے الیکشن سے قبل ٹی وی انٹرویو میں پی ٹی آئی کے ساتھ بھی شامل ہونے کا عندیہ دے دیا تھا، اسی پی ٹی آئی کا جسے وہ یہودی ایجنٹ اور نہ جانے اور کیا کیا کہتے ہیں۔ یہ تو دوسری طرف سے ناں ہوگئی اور پھر اوپر سے وہ الیکشن میں اپنی دونوں نشستیں ہار گئے، ورنہ عین ممکن ہے کہ وہ آپ کو انٹرویو پر عمل کرتے نظر آتے۔ آج کل اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کے بجائے حکومت کے ساتھ شامل ہونے کے راستے تلاش کرتے دکھائی دیتے، حکومت گرانے کے بجائے حکومت بچانے کا مشن انہوں نے سنبھالا ہوتا۔
اب الیکشن ہارنے اور پی ٹی آئی حکومت بننے کی وجہ سے مولانا کافی عرصے بعد اقتدار سے دور ہوئے ہیں، تو انہوں نے اپوزیشن کو ایک پوزیشن پر لانے کا بھاری بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانے کی کوشش روز اول سے شروع کردی، لیکن لگتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں مولانا کی اصل پوزیشن کو سمجھتی ہیں، اس لئے وہ ان کی مرضی کی پوزیشن پر کھیلنے کے لئے تیار نہیں، یہی وجہ ہے کہ مولانا کی تمام آنیاں جانیاں اب تک ناکام ہیں، انتخابات کے بعد انہوں نے حلف نہ اٹھانے کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں میں پوزیشنیں سنبھالنے کا اعلان کرکے مولانا کی پوزیشن خراب کردی، سو مولانا کو بھی یوٹرن لے کر یہ اعلان واپس لینا پڑا، اس کے بعد انہوں نے وزیراعظم اور اسپیکر کا انتخاب لڑنے کے لئے اپوزیشن کو ایک پوزیشن پر لانے کا ڈول ڈالا، اس ڈول کے ذریعے انہوں نے اپنے ولی عہد اسعد محمود کو بھی ڈپٹی اسپیکر نامزد کروا کے اقتدار میں پوزیشن دلوانے کی کوشش کی، لیکن یہ ڈول بھی سیاست کے کنویں سے نکالنے میں وہ ناکام رہے اور پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے لئے شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کردیا، بعد ازاں صدارتی الیکشن کی باری آئی، تو مولانا ایک پھر اپوزیشن کی پوزیشن بنوانے کے لئے سرگرداں نظر آئے، لیکن بعد میں جب پتہ چلا کہ اپوزیشن کے نام پر مولانا اپنے لئے صدارتی پوزیشن تلاش کر رہے ہیں، انہوں نے خود کو امیدوار بنا دیا تو ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے انہیں جھنڈی دکھا دی۔ اب مقدمات کے دبائو کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی پوزیشن خراب ہوتی دکھائی دی، تو انہوں نے مولانا کو آواز دی، مولانا تو لگتا ہے اس آواز کو ترس رہے تھے، ان کی آنیاں جانیاں پھر سے تیز ہوگئیں، انہیں اپنی پوزیشن مضبوط ہوتی دکھائی دینے لگی، انہوں نے ن لیگ سے مشاورت تو درکنا، پوچھے بغیر آل پارٹیز کانفرنس کا اعلان کردیا، زرداری نواز شریف کو ایک میز پر لانے کا دعویٰ کر ڈالا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ ن لیگ کی اپنی سیاست ہے، ان کے ساتھ پیپلز پارٹی نے صرف پچھلے دو ماہ میں تین چار بار ہاتھ کیا ہے، وہ اب کیسے اس کے ساتھ اتنی جلدی ہاتھ ملا سکتے ہیں، پھر اس طرح کا ہاتھ ملانے کے بعد پنجاب میں ان کے ساتھ سیاسی ہاتھ ہو سکتا ہے، نہ صرف عوامی بلکہ انہیں پارلیمان میں بھی نقصان ہو سکتا ہے، سو مولانا کے ساتھ پھر وہی معاملہ ہوا کہ ’’ایک اور ناکامی کا سامنا تھا مجھے‘‘۔ ن لیگ کی قیادت نے پی پی پی سربراہ کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا ہے، مولانا کی جاتی عمرہ یاترا بھی ناکام ہوگئی، نوابزادہ نصر اللہ مرحوم ٹو بننے کی کوشش میں مولانا گزشتہ ڈھائی ماہ میں ناکامیوں کی دو سے زیادہ ہیٹ ٹرک کر چکے ہیں، وہ دونوں بڑی جماعتوں کو اپنے سیاسی قد میں اضافے کے لئے استعمال کرنے چلے تھے، لیکن دونوں جماعتیں ان کے قابو میں آتی نظر نہیں آتیں۔ وہ مولانا کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے انہیں استعمال کرنے کی پالیسی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ نوابزادہ نصر اللہ مرحوم ٹو بننے کا مولانا کا خواب پورا کرنے کا ان کا ارادہ نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ وہ جانتی ہیں کہ مرحوم نوابزادہ نصر اللہ کی جدوجہد حقیقی طور پر اپوزیشن کے لئے ہوتی تھی اور مولانا کی جدوجہد ہمیشہ اقتدار کے لئے رہی ہے۔