یہ بات تو تقریباً ہر مسلمان جانتا ہے کہ غیبت ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ یہ انسانوں میں جھگڑا فساد کی جڑ ہے، لیکن یہ کتنا بدبودار اور گھنائونا جرم ہے، اس کا صحیح اندازہ بہت کم لوگوں کو ہے۔ قرآن کریم میں جو مثال اس گناہ کیلئے حق تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے، وہ کسی بھی بڑے سے بڑے گناہ کے لیے استعمال نہیں کی گئی۔ فرمایا:
ترجمہ: ’’تم ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، تم اسے ناپسند کرو گے۔‘‘ (سورۃ الحجرات: 12)
اول تو انسان کسی دوسرے انسان کا گوشت کھانے سے نفرت کرتا ہے، پھر وہ انسان اگر اس کا اپنا بھائی ہے تو اس کا گوشت کھانے کا تصور بھی نہیں کرے گا، پھر وہ بھائی بھی کیسا! مردہ۔ مردہ بھائی کا گوشت کھانے کا تصور کتنا گھنائونا ہے، اس کا اندازہ آپ خود کر لیجئے۔
غیبت کی تعریف
آنحضرتؐ سے ایک صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ! غیبت کے کیا معنی ہیں؟ اور بعض روایات میں ہے کہ خود حضور اقدسؐ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا، جانتے ہو کہ غیبت کیا ہوتی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہی بتا دیں۔ آپؐ نے فرمایا: ذِکْرُکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ یعنی اپنے کسی مسلمان بھائی کا اس کے پیٹھ پیچھے ایسے انداز میں ذکر کرنا کہ جب اس کو پتہ چلے کہ میرا اس طرح ذکر کیا گیا ہے تو اس کو ناگوار گزرے۔ ایک صحابیؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ! جو بات میں اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں ذکر کر رہا ہوں، اگر وہ سچی ہو، وہ برائی اس کے اندر موجود ہو تو کیا پھر بھی گناہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اگر وہ برائی اس کے اندر موجود ہے تب ہی تو یہ غیبت ہے۔ اگر وہ برائی اس میں موجود نہیں تو پھر اس میں بہتان کا گناہ بھی شامل ہے۔ یعنی ڈبل گناہ ہے، ایک غیبت کا گناہ اور ایک بہتان کا گناہ۔
غیبت زنا سے بدتر ہے
ایک اور حدیث میں رسول اقدسؐ نے فرمایا: اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا۔ یعنی غیبت زنا سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے۔ زنا کا عمل ایسا متفقہ گناہ ہے کہ ساری دنیا کے تمام مذاہب اس عمل کو حرام اور ناجائز کہتے ہیں۔ زانی شخص کو ہر معاشرے میں نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ زنا سے بدتر اور بڑا گناہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ زنا کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہے۔ اگر کبھی توبہ کی توفیق ہو گئی اور اپنے فعل پر نادم ہو کر حق تعالیٰ کے سامنے لایا اور گڑگڑایا اور یہ عزم کر لیا کہ آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہیں جائوں گا تو رب تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔
لیکن غیبت کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ غیبت کر کے اس نے دوسرے کی عزت و آبرو پر حملہ کیا ہے اور کسی مسلمان کی آبرو پر حملہ کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رسول اقدسؐ کے ساتھ کعبے کا طواف کر رہا تھا۔ آپؐ نے کعبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے بیت اللہ! تو کتنا عظیم ہے، تیری حرمت کتنی عظیم ہے، تیرا تقدس کتنا اونچا ہے، لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کی حرمت تجھ سے بھی زیادہ ہے، وہ ہے مسلمان کی جان۔ اس کا مال، اس کی آبرو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا گناہ کعبہ پر حملہ کرنے سے بھی زیادہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ مجھے اور تمام مسلمانوں کو اس سے بچائے۔ آمین)
غیبت کی اس تعریف اور گھنائونے پن کو جاننے کے بعد ہمارے لیے اس سے بچنا کتنا ضروری ہو جاتا ہے، اس کا اندازہ ہر مسلمان کر سکتا ہے۔ لیکن بہت سی صورتیں ایسی
ہیں جو گناہ نہیں ہوتی ہیں، لوگ غلطی سے اسے گناہ سمجھ کر سخت پریشان ہو جاتے ہیں اور یہ پریشانی انہیں مایوسی کی طرف لے جاتی ہے۔
جو غیبت گناہ نہیں ہے
(1) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کھلم کھلا برائی میں مبتلا ہوتے ہیں، اس کی یہ برائی ہر شخص کو معلوم ہے۔ مثلاً ایک شخص شراب پیتا ہے اور سب کے سامنے پیتا ہے۔ اب اگر آپ اس شخص کے بارے میں کسی سے یہ کہیں کہ یہ شخص شراب پیتا ہے، تو اس میں غیبت نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کو اپنے اس عمل پر کوئی شرم ندامت بھی نہیں ہے، اگر آپ کسی سے اس کی اس برائی کا تذکرہ کریں گے اور اسے یہ معلوم بھی ہو جائے کہ فلاں شخص نے میرے بارے میں یہ بات کہی ہے تو اسے اس پر کوئی ناگواری نہیں ہو گی، یہاں غیبت کی شرط ناگواری نہیں پائی جاتی۔
اسی وجہ سے رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ میری امت کے لوگ چاہے کیسی ہی غلطی میں مبتلا ہوں، ان کو معاف کر دیا جائے گا سوائے ان لوگوں کے جو کھلم کھلا گناہ کرتے ہیں، ان کی معافی نہیں ہوگی۔ ایسے لوگوں کی برائی کا تذکرہ اگر پیٹھ پیچھے بھی کریں تو گناہ نہیں ہوگا، جائز ہے اور نہ یہ غیبت میں داخل ہے۔
(2) دوسری بات جو یاد رکھنی چاہئے، وہ یہ ہے کہ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے اندر کوئی برائی پائی جاتی ہے اور یہ اندیشہ ہو کہ اس کی اس برائی کی وجہ سے دوسرے شخص کو نقصان پہنچ جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک آدمی دھوکے باز ہے، لوگوں سے لین دین اور معاملات کرتا ہے اور اس میں ان کو دھوکا دیتا ہے۔ اب فرض کیجئے کہ یہ دھوکے باز کسی شخص کے پاس کوئی سودا کرنے یا کوئی اہم معاملہ کرنے پہنچا، آپ بھی موجود ہیں، آپ نے اس شخص کے بارے میں بتا دیا کہ اس آدمی سے ہوشیار رہنا، یہ شخص دھوکے باز ہے، اس کے معاملات اچھے نہیں ہیں، بہت سے لوگوں کو دھوکا دے چکا ہے۔ اب دوسرے کو نقصان سے بچانے کے لیے آپ نے اس کی یہ برائی بیان کر دی تو یہ غیبت نہیں ہے، بلکہ آپ نے ایک مسلمان بھائی کی خیرخواہی کی ہے، اس لیے خیرخواہی کا ثواب ملے گا۔
مگر یہ شرط ضروری ہے کہ آپ کو اس شخص کا دھوکے باز ہونے کا علم یقینی ہو۔ کسی کے کہنے سننے میں آکر اس کو دھوکے باز نہ سمجھا گیا ہو، اگر ایسا ہوا تو یہ شخص دہرے گناہ کا مرتکب ہو گا۔
(3) بعض حالات میں غیبت کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے گھر پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔ حملے کا مقصد ڈاکہ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے یا کسی کا قتل کرنا بھی۔ آپ کو اس منصوبے کا پتہ چل گیا، تو اگر آپ متعلقہ شخص کو بتا دیں کہ ہوشیار رہنا، فلاں شخص تمہارے گھر پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔
اب دیکھئے، اس میں بظاہر تو غیبت بھی پائی جا رہی ہے اور اگر اس شخص کو معلوم ہو گا کہ میرا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے تو اسے ناگوار بھی گزرے گا۔ یعنی غیبت کی دونوں شرائط پائی جا رہی ہیں، مگر آپ جانتے ہیں کہ اگر میں یہ پلان ظاہر نہیں کروں گا تو ایک مسلمان کو جان و مال کا نقصان پہنچ جائے گا، مگر یہ غیبت صرف جائز ہی نہیں، ضروری اور فرض ہے۔
(4) رشتے کے مشورے میں اظہار حق اسی طرح اگر کسی شخص کے یہاں کسی نے رشتہ بھیجا۔ اب لڑکی والے آپ سے مشورہ کر رہے ہیں کہ فلاں شخص کی طرف سے رشتہ آیا ہوا ہے، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ لڑکے میں فلاں خرابیاں ہیں۔ لڑکے کی خرابیاں بتا دینا غیبت میں داخل نہیں ہے۔ یہ لڑکی والوں کو ساری زندگی پریشانیوں سے بچانے کے لیے آپ نے بتائی ہیں۔ یا اگر شبہ ہے تو اپنا شبہ ان پر ظاہر کر دیں۔ یہ ایک مسلمان کے ساتھ خیرخواہی ہے اور اجر و ثواب کا عمل ہے۔ اصول یہ ہے کہ کسی دوسرے کو نقصان سے بچانے کے لیے اگر برائی بیان کرنی پڑے تو یہ نہ غیبت ہے نہ گناہ۔
بہت سے لوگ اس خیال سے کہ غیبت نہ ہو جائے ایسے مواقع پر خاموش رہتے ہیں، ایسا کرنا درست نہیں ہے۔
(5) راویوں کے حالات کی تحقیق دیکھئے! آنحضرتؐ کی جتنی احادیث ہم تک پہنچی ہیں، وہ اس طرح پہنچی ہیں کہ ایک صحابیؓ نے ایک حدیث دوسرے کو سنائی، دوسرے نے تیسرے کو سنائی، تیسرے نے چوتھے کو سنائی، یہاں تک کہ وہ حدیث ہم تک پہنچ گئی۔
حق تعالیٰ نے حدیث کی حفاظت کے لیے ایسے علما اور محدثین پیدا فرما دیئے، جنہوں نے اپنا وقت اور محنت اس کام میں لگا دی کہ ان راویوں کی زندگی کا کچا چٹھا جمع کر کے کتابوں میں لکھ دیا اور تحقیق کر کے بتا دیا کہ فلاں راوی بھروسہ کرنے کے لائق ہے اور فلاں نہیں۔ ان راویوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچتی ہے اور اس وقت دنیا میں دو سو سے زائد حدیث کی کتابیں موجود ہیں۔ آپ کسی حدیث پر انگلی رکھ دیں، کتابوں میں اس کے راویوں کا حال معلوم ہو جائے گا فلاں راوی کہاں پیدا ہوا، کس کس استاد سے پڑھا، اس کا حافظہ کیسا تھا، اس کے اخلاق اور معاملات کیسے تھے، اس علم کا نام اسماء الرجال ہے۔ اس میں راویوں کے ذاتی اور باطنی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
پوری دنیا میں کسی مذہب و ملت میں آپ کو یہ علم نہیں ملے گا کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے اقوال و اعمال کی حفاظت کا اتنا اہتمام کیا ہو۔ حضرت یحییٰ بن معینؒ جو اس علم کے امام ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ جب ہم راویوں کے حالات جاننے کے لیے کسی بستی میں جا کر ان کے نام سے ان کے بارے میں چھان بین کرتے تو لوگ پوچھتے تھے کہ آپ کی کسی لڑکی کا رشتہ آیا ہے؟ اب بہت سے راویوں کے بارے میں لکھا ہے وہ جھوٹا ہے، کذاب ہے، وغیرہ۔ اب دیکھئے بظاہر تو یہ غیبت ہے، لیکن یہ اس لئے ضروری ہے تاکہ رسول اکرمؐ کی حدیث کی حفاظت کی جا سکے، لہٰذا یہ غیبت نہیں، بلکہ بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ (اصلاحی خطبات، ج 17، ص 89) ٭
Prev Post
Next Post