شیخ سریؒ فرماتے ہیں: میں نے قید خانہ کے داروغے سے کہا: اس لونڈی کو چھوڑ دو۔ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ میں نے لونڈی سے کہا: جہاں تیرا دل چاہے، چلی جا۔ کہا: اے سری میں کہاں جاؤں؟ اسے چھوڑ کر کہاں میرا راستہ ہے؟ میرے دل کے دوست (خدا) نے اپنے مملوک انسان کو میرا مالک بنادیا۔ اگر میرا مالک راضی ہوگا، چلی جاؤں گی، ورنہ صبر کروں گی۔
میں نے کہا: خدا کی قسم یہ تو مجھ سے زیادہ عقلمند ہے۔ میں اسے حال میں اس سے باتیں کررہا تھا کہ اس کا مالک آگیا، داروغے سے پوچھا۔ اس کی لونڈی تحفہ کہاں ہے؟ (اس لونڈی کا نام تحفہ ہے) کہا اندر ہے اور اس کے پاس شیخ سری سقطیؒ بیٹھے ہیں۔ مالک یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اندر آیا اور مجھے مرحبا کہا اور تعظیم کی۔
میں نے کہا: یہ لونڈی میری بہ نسبت تعظیم کی زیادہ مستحق ہے، اس کی کونسی حرکت تجھے ناپسند ہے؟ کہا بہت سی باتیں ہیں۔ نہ کھائے، نہ پئے بے عقل، نہ خود سوئے نہ ہم کو سونے دے، ہر وقت متفکر رہتی ہے۔ ذرا سی بات پر فوراً رو دے۔ آہ و نالے سے کام ہے، سدا رویا کرتی ہے اور یہی میری پونجی ہے۔ میں نے اپنا تمام مال بیس ہزار درہم دے کر اس کو مول لیا اور امید تھی کہ نفع حاصل ہوگا، کیونکہ حسن و جمال کے علاوہ یہ اور کام بھی جانتی ہے۔
میں نے کہا اور کیا کام کرتی ہے؟ کہا گانا جانتی ہے۔ میں نے کہا کتنی مدت سے اس کو یہ مرض ہے؟ کہا ایک برس سے۔ میں نے کہا ابتدا کیسے ہوئی؟ کہا: ایک مرتبہ عود لئے گا رہی تھی، دفعۃً عود توڑ کر کھڑی ہوگئی اور چلائی۔ میں نے اس انسان کی محبت کی تہمت لگائی، میں نے اس کی تحقیقات کی مگر کچھ علامت و نشان نہ پایا۔
شیخ سری فرماتے ہیں کہ میں نے لونڈی سے پوچھا: کیا ایسا ہی معاملہ ہے؟ لونڈی نے زبان تیز اور جلے دل سے جواب دیا: میرے دل سے خدا نے مجھ کو خطاب کیا۔ میرا وعظ میری زبان پر تھا۔ مجھ کو دوری کے بعد قریب کیا اور مجھ کو خدا نے خاص منتخب کیا، جب میں برضا و رغبت بلائی گئی، میں نے قبول کیا اور اپنے بلانے کے جواب میں لبیک کہا، جو کچھ مجھ سے پچھلی عمر میں گناہ ہوئے تھے، میں ان سے ڈری، مگر محبت نے خوف دفع کرکے آرزوؤں میں ڈال دیا۔
شیخ سری سقطیؒ فرماتے ہیں: میں نے اس کے مالک سے کہا: اس کی قیمت میرے ذمے ہے اور میں اس سے بھی زیادہ دوں گا۔ مالک چلایا اور کہا: ہائے محتاجی! تیرا برا ہو، تم تو ایک مرد فقیر اس کی قیمت کہاں پاؤ گے؟ میں نے کہا: جلدی نہ کرو، تم یہیں رہو، میں اس کی قیمت لاتا ہوں، پھر وہاں سے غمگین روتا ہوا چل دیا۔ قسم خدا کی میرے پاس لونڈی کی قیمت کے ایک درہم بھی نہ تھا۔ تمام رات خدا کی درگاہ میں روتا رہا اور خوشامد عاجزی کرتا رہا اور اس سے دعا مانگتا رہا۔ تمام رات آنکھ نہ جھپکی اور کہتا رہا: خداوندا تو ظاہر و باطن خوب جانتا ہے، میں نے تیرے فضل پر اعتماد کیا۔ مجھے رسوا نہ کرنا۔ اس لونڈی کے مالک کے روبرو شرمندہ نہ ہوں۔
اسی حالت میں عبادت خانہ میں بیٹھا ہوا دعا مانگ رہا تھا کہ ایک شخص نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے کہا: دروازہ پر کون؟ کہا دوستوں میں سے ایک دوست ہے، کسی کام سے آیا ہے، خدائے مہربان کا حکم اسے یہاں لایا ہے، میں نے دروازہ کھول دیا۔ ایک شخص چار غلام اس کے ہمراہ شمع لئے تھے۔ اس آنے والے نے کہا: اے استاد! مجھ کو اندر آنے کی اجازت ہے؟ میں نے کہا آؤ۔ وہ شخص اندر آیا، میں نے پوچھا تم کون ہو؟ کہا احمد بن مثنی ہوں، مجھ کو ایسے شخص نے دیا ہے کہ وہ دیتے وقت بخل نہیں کرتا۔ میں آج رات سورہا تھا کہ ہاتف غیبی نے پکار کر کہا پانچ توڑے اشرفیاں سری کے پاس لے جاؤ تاکہ ان کا دل خوش ہو اور تحفہ کو خرید لیں، کیونکہ ہم کو تحفہ کے حال پر مہربانی ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭